واپسی کے ٹکٹ کے بغیر
کیا گھمنڈ ایک لائق تعزیر جرم ہے؟ کیا آپ پر بیوقوفی کی بنا پر کوئی مقدمہ چل سکتا ہے؟ زیادہ تر موقعوں پر، لوگوں کو جو سزا ملتی ہے وہ کسی جرم کے ارتکاب کی بنا پر نہیں ملتی، بلکہ اس لئے ملتی ہے کہ وہ پکڑ لئے جاتے ہیں
اپنے اقتدار کے برسوں میں، مشرف اپنے آپ کو حکمت عملی کا ماہر کہتے ہوئے نہیں تھکتے تھے- لیکن جب انہوں نے ہماری فوجوں کو بحفاظت اور باعزت واپسی کی منصوبہ بندی کے بغیر کارگل بھیج دیا تھا، تو گویا کہ وہ واپسی کی ٹکٹ کے بغیر پاکستان آگئے تھے-
میں اپنے آپ کو اس کا مجاز نہیں سمجھتا ہوں کہ مشرف کے بغاوت کے مقدمے کے آئینی نقطۂ نظر سے صحیح یا غلط ہونے پر اپنی رائے دوں- بہرحال، میں ٹی وی کے پروگراموں میں، ان کی بے چینی پر، چُھپی ہوئی خوشی پر اپنی ناپسندیدگی کو ریکارڈ پر لانا ضروری سمجھتا ہوں-
سابق صدر کی ذلت اور توہین پر اپنا ڈھنڈورا پیٹنے والے شیخی خوروں اور بمشکل اپنی خوشی کو دبانے والوں کو دیکھ کر مجھے سخت کوفت ہونے لگی ہے-
پاکستان میں سابق لیڈروں کو ہر خرابی کا ذمہ دار ٹھیرا کر انکے پیچھے پڑجانا ہم لوگوں کی عادت ہوگئی ہے اور ان کی اچھی باتوں کو بھول کرصرف ان کی غلطیوں کو نشانہ بناتے ہیں- جس نے بھی میرے پرانے کالم پڑھے ہیں ان کو پتہ ہے کہ میں نے مشرف کے بارے میں کبھی کوئی لگی لپٹی نہیں رکھی، لیکن کیا وہ واقعی اتنا ہی خرابیوں کے پیکر ایک شخص تھے جتنا ہم انہیں بنا کر پیش کر رہے ہیں؟
یہ حقیقت ہے کہ انھوں نے ہماری اسمبلیوں میں عورتوں کی نمائندگی کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا اور اقلیتوں کے جداگانہ انتخابات کے نقصان دہ سسٹم کو ختم کیا جسےضیاءالحق نے رائج کیا تھا-
مشرف کو ادھیڑ نے کی اصل وجہ ان کا افغانستان پر مشہور یو ٹرن اور" دہشت گردی کی جنگ " کے خلاف پاکستان کو امریکہ کا اتحادی بنانے کا فیصلہ تھا- لوگ امریکہ کے غصے کو اور اس کے ساتھ 9/11 کے حادثے کے فوراً بعد واشنگٹن کے لئے عالمی حمایت کا جو ماحول تھا اسے بھول جاتے ہیں- امریکہ کا ایک جنگی بیڑا ہمارے ساحلوں کے قریب ہونے کی صورت میں، مجھے نہیں پتہ کہ کوئی دوسرا پاکستانی لیڈراس وقت کیا فیصلہ کرتا-
ہم یہ بھی بھول گئے ہیں کہ جب مشرف نے بغاوت کی ہے تو ہماری معیشت کس حال میں تھی: جو نواز شریف کے ایٹمی دھماکے کے بعد کی پابندیوں کے نتیجے میں بالکل اپاہج ہوگئی تھی، فوجی قبضے کے بعد کچھ اور نئی پابندیاں سزاؤں کے طور پر لگ گئی تھیں-
لہٰذا دراصل صحیح معنوں میں، 9/11 نے مشرف کے سامنے نئی زندگی کا ایک سنہری موقع پیش کیا جسے مشرف نے دونوں ہاتھوں سے تھام لیا- یہ درست ہے کہ فوجی حکومت ان سب تبدیلیوں کے لئے ایک بڑی قیمت تھی-
یقیناً وہ ایک آمر تھے، اور ہمارے کمزور اداروں کو بہت بھاری نقصان پہنچایا- لیکن ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ وہ تمام لوگ جو آج انکے خلاف بدزبانی کررہے ہیں ان سب نے ان کی حکومت سے فائدے اٹھائے ہیں-
چاہے ہم اسے پسند کریں یا نہ کریں، تقریباً ایک دہائی تک، باہر کی دنیا کیلئے مشرف ہی پاکستان کی علامت اور پہچان تھے- مغرب کی نظر میں، مشرف ایک سنجیدہ، متین اور کام کے لیڈر تھے جو القاعدہ کے خلاف جنگ میں ایک قابل اعتماد اتحادی تھے-
یہ بھول جایئے کہ وہ ساتھ ساتھ دہرا کھیل بھی کھیلتے تھے، اچھے طالبان کے ساتھ قربت کا، اور ساتھ میں القاعدہ کے اہم کارندوں کو گوانتانامو جیل بھجوا کے بھی-
مشرف کا مقدمہ ہماری تیسری دنیا میں ایک ملک کے انتقام کے بھونڈے تصور پر پورا اترتا ہے، واقعتاً، جب سے بھٹو کی حکومت کو ختم کرکے ضیاءالحق اور اس کے ٹولے نے انہیں انتقام کے طور پر پھانسی پر لٹکایا تھا، یہ ماضی کے لیڈروں کا ایک نہ ٹوٹنے والا سلسلہ بن گیا تھا کہ آنے والی حکومتیں پچھلی حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنائیں-
مبینہ بدعنوانی کے الزامات کے ساتھ ایک کے بعد دوسری حکومت کے گرنے پر قانون اور میڈیا کے ہاتھوں " احتساب" کے نام پر، بےنظیر اور نوازشریف دونوں اسی تباہ کن شغل میں پورے 1990 کے دوران مصروف رہے-
یہ نہیں تھا کہ دونوں میں سے کسی کے بھی ہاتھ صاف تھے، لیکن ان سیاسی مخاصمتوں نے لیڈروں، اور جمہوریت پر لوگوں کے اعتماد کو بری طرح متاثر کیا اور فوج کیلئے ایک موقع فراہم کیا کہ وہ ان حالات کا فائدہ اٹھائے-
حقیقت تو یہ ہے کہ جب تک ہماری سیاسی طاقتیں ایک درست راستہ نہیں اختیار کرتی ہیں، طالع آزما اس خلا کو بھرنے کیلئے آگے آتے ہی رہیں گے-
فوج کو اپنی ساری خرابیوں کے لئے الزام دینا بہت آسان ہے- لیکن اپنی ساری کمزوریوں کے باوجود، یہ ملک کا ایک لازم اور ضروری حصہ ہے-
یہ درست ہے، کہ یہ اکثر ریاست کے اندر ایک اور ریاست کا تاثر دیتی ہے، اور حکومت کے ساتھ اس کے تعلقات پر ایک موثر ایماندارانہ نظرثانی کی ضرورت ہے- لیکن اس ادارے کی عزت اور وقار کوکم کرکے یہ کام ممکن نہیں ہے-
پہلے ہی، فوج جہادیوں کےساتھ ہونے والی جنگ پر نواز شریف کی عاید کی ہوئی پابندیوں کے باعث تناؤ میں ہے جنہوں نے ہماری فوج کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے- اپنے سابق سربراہ کو 95 سالہ بوڑھی اور بیمار ماں کی عیادت سے روکنے کی کوشش کرتے ہوئے دیکھنا بھی آفیسر کور کے ساتھ فوج کے جوانوں کیلئے بھی تکلیف دہ بات ہوگی-
ان تمام الجھنوں سے زیادہ، میں سمجھتا ہوں کہ سابق صدر کو جانے کی اجازت دے کرہم اس بات کا عملی مظاہرہ کرسکتے ہیں کہ جس طرح ہم نے ایک منتخب حکومت سے دوسری منتخب حکومت کو پرامن اقتدار منتقل کیا ہے اسی طرح سے ہم مخاصمت اور سیاسی انتقامی کارروائیوں کے چکر سے بھی باہر نکل آئے ہیں-
ترجمہ ۔ علی مظفر جعفری ۔