سینیٹ میں تحفظ پاکستان آرڈیننس کی مخالفت کریں گے، پی پی پی
اسلام آباد : سینیٹ میں سب سے بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے اس ماہ کی چودہ تاریخ سے شروع ہونے والے سینیٹ کے اجلاس میں تحفظ پاکستان بل کی مخالفت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
پیر کو قومی اسمبلی میں اپوزیشن کے شدید احتجاج کے باوجود اس قانون کو منظور کر لیا گیا تھا جبکہ انسانی حقوق کے ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی اس کی شدید مذمت کی تھی۔
تحفظ پاکستان بل کے مندرجات میں کہا گیا ہے دہشتگردوں کے خلاف مقدمات کے ٹرائل کو تیز کیا جائیگا، دہشتگردی کے مقدمے کے کی تفتیش مشترکہ ٹیم کرے گی اور دہشت گردوں کے خلاف مقدمات کیلئے خصوصی عدالت بھی قائم ہوں گی جبکہ بل کے تحت سزا یافتہ شخص کو ملک کی کسی بھی جیل میں رکھا جاسکے گا۔
سینیٹر فرحت اللہ بابر نے آج ایک رسمی بیان میں کہا ہے کہ تحفظ پاکستان آرڈیننس کا مقصد ملک کو عسکریت پسندی سے محفوظ کرنا نہیں بلکہ یہ لوگوں کے اغوا جاری رکھنے اور لاشوں کو ٹھکانے لگانے کے لیئے سیکورٹی ایجنسیوں کو لائسنس ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ گمشدگی کے مقدمات میں عدالتوں یا پارلیمنٹ کی طرف سے پوچھ گچھ سے قانون نافذ کرنے والوں کو استثنٰی کے لیئے وضع کیا گیا ہے۔
پی پی پی ترجمان نے کہا کہ آرڈیننس اقوام متحدہ کے کنونشن، تشدد اور شہری و سیاسی حقوق کے تحفظ کی خلاف ورزی ہے۔ جس پر پاکستان نے بھی دستخط کیئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس قانون سے پاکستان میں تشدد کے دروازے کھل جائیں گے۔
سینیٹر نے کہا کہ بلوچستان، کراچی میں قانون نافذ کرنے والوں نے پہلے ہی تباہی پیدا کی ہوئی ہے۔
حزب اختلاف کی جماعتیں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی پی) کی قیادت میں نئے انسداد دہشت گردی قانون کو عدالت میں چیلنج کرنے پر غور کر رہی ہیں۔
تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے منگل کو ایک نیوز کانفرنس میں بتایا تھا کہ اس قانون سے پاکستان ایک پولیس ریاست میں تبدیل ہو جائے گا۔
انہوں نے مزید کہا تھا کہ ہم نے اسے عدالت میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
تاہم پی پی پی نے اسے اس مرحلے پر عدالت میں لے جانے کی مخالفت کی ہے۔