• KHI: Maghrib 6:14pm Isha 7:29pm
  • LHR: Maghrib 5:41pm Isha 7:02pm
  • ISB: Maghrib 5:45pm Isha 7:08pm
  • KHI: Maghrib 6:14pm Isha 7:29pm
  • LHR: Maghrib 5:41pm Isha 7:02pm
  • ISB: Maghrib 5:45pm Isha 7:08pm

!سب سٹہ ہے

شائع April 9, 2014 اپ ڈیٹ April 10, 2014

میرا دوست شباب گراں یہ بات نہیں مانتا کہ پاکستان میں ٹیلنٹ کی کمی ہے، وہ اس ضد پر اڑا ہے کہ پاکستان میں جو کچھ ہوتا ہے، سب فکسڈ ہے۔ کرکٹ، مذاکرات، ٹی وی چینلز، یہاں تک کے سی این جی کا شرمیلی محبوبہ کی طرح دو دن کے لیئے شکل دکھانا اور تین دن کے لیئے قریب آنا، مگر اتنا قریب جتنا معاشرہ اجازت دے۔

جب ٹی ٹوئنٹی عالمی کپ کا آغاز ہوا اور پاکستان کی کرکٹ ٹیم ہندوستان سے اپنا پہلا میچ با خوشی ہار گئی تو شباب گراں نے مجھ سے کہا کہ تمام میچز پہلے سے طے ہیں، پاکستان سیمی فائنل تک پہنچ جائے گا اور کسی کو خبر بھی نہ ہو گی، یہاں تک کہ پاکستان اور ہندوستان ایک بار پھر فائنل میں ٹکرائیں گے اور اس بار پاکستان ہندوستان کو ایسے ہرائے گا کہ کراچی کی فضا ہوائی فائرنگ سے معطر ہو جائے گی.

جب پاکستان نے آسٹریلیا کو دقت سے اور بنگلہ دیش کو رقت کے ساتھ شکست دی تو مجھے محسوس ہوا کہ شباب گراں کی خبر میں دم ہے۔ کہیں یہ خبیث کسی اسپورٹس ٹی وی چینل کے صحافی کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے تو نہیں لگا۔ مگر اردو اچھی بولتا ہے، ٹی وی چینل والوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا کیسے ہو سکتا ہے، تب اس کے پاس یہ خبر کہاں سے آئی؟

خیر۔۔۔ تو ہوا کچھ یوں کہ شباب گراں کی بات کچھ کچھ دل میں ٹھکنے لگی۔ جس روز پاکستان کا میچ آسٹریلیا سے ہونا تھا، میں ناشتا لینے کے لیئے اپنے فلیٹ کے نیچے واقع بیکری گیا۔ وہاں کچھ سیلزمین جو مجھے صحافی ہونے کی بنا پر یہ سمجھتے ہیں کہ ملک کے جتنے راز ہیں میں سب سے واقف ہوں، پوچھنے لگے کہ آج کیا ہو گا، پاکستان جیتے گا یا آسٹریلیا؟

مجھے شباب کی بات یاد آئی اور میں نے کہہ دیا کہ جناب اب پاکستان اپنے تینوں میچ جیت کر گرم مکھن سے چھری کی طرح با آسانی سیمی فائنل میں پہنچ جائے گا۔ یہ سن کر بیکری کے سیلزمین، خاص طور پر انور، جس کا تعلق پنجاب کے ایک چھوٹے شہر سے ہے، ایسے منہ کھول کر میری طرف دیکھنے لگا جیسے کچھ کہنا چاہتا ہو۔

"بھائی صاحب، آپ کس کے ساتھی ہیں؟"

"ارے صحافی ہوں سب جانتا ہوں۔"

"مطلب۔"

"یہ سب پہلے سے طے ہے۔"

یہ بات سن کر انور کا منہ مزید کھل گیا۔ یوں لگا جیسے ڈولفن مچھلی پر دریائی گھوڑے کا منہ لگا دیا گیا ہو۔ خیر بھئی بات آئی گئی ہو گئی۔

اگلے روز میں جب ناشتا لینے پھر بیکری پہنچا تو انور کاونٹر چھوڑ کر میرے پاس آیا۔

"بھائی صاحب، یہ تو کمال ہو گیا، پاکستان نے آسٹریلیا کو ہرا دیا!"

"جی۔۔۔ میں نے کہا تھا میرے دوست سب طے ہے۔"

"تو اس کا مطلب ہے کہ اب پاکستان بنگلہ دیش اور ویسٹ انڈیز کو بھی ہرا دے گا۔"

"مکھن، مکھن ہو گا سب کچھ۔۔۔ ہاں، سیمی فائنل میں کیا ہوگا، یہ میں نہیں کہہ سکتا۔۔۔"

"چلیں بھائی دیکھتے ہیں۔۔۔"

اور پھر پاکستان نے بنگلہ دیش کو بھی ہرا دیا۔ اب تو جیسے ہی میں نے بیکری میں قدم رکھا، انور سب کچھ چھوڑ چھاڑ مجھ سے مخاطب ہو گیا۔

"بھائی صاحب، کون پہلے بیٹنگ کرے گا، ویسٹ انڈیز یا پاکستان"۔

"دیکھو بنگلہ دیش کے خلاف پہلے بیٹنگ کی تھی تو ویسٹ انڈیز کے خلاف باؤلنگ ہو گی۔"

اور نہ جانے کیوں ایسے ہی ہوا۔۔۔ میں من ہی من اپنی پیٹھ تھپتھپانےلگا کہ لو بھئی اب تو لوگ پیری مریدی کے چکر میں پڑ جائیں گے اور مجھ سے اولاد نرینہ ہونے یا نہ ہونے کی فال نکلوائیں گے۔

مگر بقول میری نانی کے، "اۓ یہ کیا ہوا" ۔۔۔ پاکستان ہارا اور اس بری طرح ہارا کے ہار کا لفظ اپنے معنے کھو بیٹھا۔ مجھے گمان ہوا کہ انور اب میرا مذاق اڑائے گا۔ میں ناشتا خریدنے کے بہانے بیکری پہنچا تو دیکھتا ہوں کے انور کا رنگ 1918 کے انقلاب کی طرح سرخ ہے اور اس کی آنکھیں باربیکیو گریل سے اٹھتے شعلوں کی طرح دھک رہی ہیں۔ مجھے دیکھتے ہی بیکری سے باہر چلا گیا۔

میں گھبرا گیا، کاؤنٹر پر موجود شمس سے پوچھا، کیا ہوا، یہ پاکستان کے ہارنے پر اتنا خفا ہے؟

شمس نے کہا، "نہیں بھائی صاحب، اس بیچارے نے آپ کی بات کو سچ مانتے ہوئے ایک دوست کے ساتھ ہزار روپے کی شرط لگا لی تھی، پاکستان جیتا تو اسے دو ہزار روپے ملتے، مگر اب یہ ہزار سے بھی ہاتھ دھو چکا ہے۔ غریب آدمی ہے، تنخواہ ہی چار ہزار روپے ہے، اس لیئے باؤلا ہوا جا رہا ہے"۔

میں گھر واپس آیا، ٹی وی پر میچ کے بارے میں تبصرہ چل رہا تھا، میں نے ٹی وی بند کیا اور اپنے موبائل فون سے شباب گراں کا نمبر ڈیلیٹ کر دیا۔

پیرزادہ سلمان
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 6 اکتوبر 2024
کارٹون : 4 اکتوبر 2024