آنکھوں دیکھی -- ریویو
ایک فلم کی کامیابی کی ضمانت اس میں موجود سپر سٹار یا بھڑکیلے گانے نہیں ہوتے بلکہ اس کا سکرپٹ، سکرین پلے، سنیماٹو گرافی، اور ڈائریکشن ہوتے ہیں- بولی وڈ میں زیادہ تر فلموں پر پیسا تو بہت لگایا جاتا ہے اور ان کی تشہیر بھی خوب کی جاتی ہے لیکن آخر میں نکلتی وہ مصالحہ موویز ہی ہیں، صرف ان سے بھڑکیلے رقص، گلیمر، رومانس، غیرحقیقی اسٹنٹس دکھا کر پیسا کمایا جاتا ہے- رجت کپور کی ڈائریکشن 'آنکھوں دیکھی' دیکھ کر احساس ہوا کہ جب زندگی میں کامیڈی، فلسفہ، اور ڈرامے کو ملایا جائے تو کیسا شاہکار وجود میں آتا ہے۔
بھیا، کہانی بڑی سادہ ہے، دہلی کے علاقہ فتح پوری میں رہنے والا ایک لوئر-مڈل کلاس خاندان، چھوٹا سا گھر، جس کے چھوٹے چھوٹے کمروں میں ادھیڑ عمر باؤجی (سنجے مشرا) اور ان کے بیوی بچے اور ساتھ ان کا چھوٹا بھائی، رشی (رجت کپور) اور اس کا چھوٹا سا خاندان رہتا ہے- روٹی، کپڑا اور مکان کی چکی میں پھنسے اس خاندان کے سربراہ پر ایک دن یہ انکشاف ہوتا ہے کہ سنی سنائی پر یقین کرنے کی بجائے اسے سچ مانو جو خود دیکھو اور سنو، بس اس دن سے ان کی زندگی کی دھارا ہی بدل جاتی ہے- ظاہر ہے جب گھر کا سربراہ اوٹ پٹانگ حرکتیں کرنے لگے تو اس کے اثرات خاندان پر بھی پڑتے ہیں- نتیجتاً اس خاندان کا شیرازہ بکھر جاتا ہے لیکن باؤجی اپنی جگہ ڈٹے رہتے ہیں، ان کی معصومانہ باتیں اور فلسفیانہ حماقتیں ہی فلم کی جان ہیں۔
سکرین شاٹ |
'آنکھوں دیکھی'، ہمارے اور آپ جیسے عام لوگوں کی کہانی ہے، رائٹر/ڈائریکٹر رجت کپور کی آنکھوں نے ایسے لوگوں کی زندگی میں موجود خوبصورتی کو دیکھا ہے- سادگی، جوائنٹ فیملی سسٹم کی پریشانیاں، بھابیوں کی کھٹ پٹ، نوجوان لڑکے لڑکیوں کے مسائل وغیرہ- شہر کی تنگ گلیوں میں زندگی کس طرح انچ انچ کر کے اپنا راستہ بناتی ہے، ان سب میں موجود خوبصورتی رجت کپور کے کیمرے نے ڈھونڈ نکالی ہے۔
رجت کپور کا انڈیا، گلیمر زدہ انڈیا نہیں ہے، یہاں ہیروئن کو کسی سیکس فرنچائز کے طور پر بیچا نہیں جاتا، نہ یہاں ہیرو کے لئے سمارٹ اور سکس پیک والا نوجوان ہونا ضروری ہے جنہیں شو بزنس میگزین کے چمکیلے سرورق پر سجایا جاسکے- ان کا انڈیا معصوم ہے، جہاں محبّت ہے، بڑوں کا احترام ہے، یہاں چچا آج بھی اپنی بھتیجی کے بوائے فرینڈ کو دو جھانپڑ رسید کر سکتا ہے- رجت کپور نے سماج کے اس رجحان کی طرف بھی اشارہ کیا ہے جہاں لوگ 'اندھوں میں کانا راجا ' کے مصداق اپنی عقل استعمال کرنے کی بجائے دوسروں کی اندھی تقلید شروع کر دیتے ہیں- بہرحال، رجت کپور نے ہمیں ایسے کردار دکھائے ہیں جن پر کبھی ہنسی آتی ہے، کبھی ہمدردی محسوس ہوتی ہے اور کبھی یہی کردار ہمیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔
سکرین شاٹ |
فلم میں سنجے مشرا نے ایک ہوشیار احمق (باؤ جی) کا کردار بہت خوبی سے ادا کیا ہے- یقیناً ان کے اندر ایک بہترین اداکار موجود ہے بس اس ہیرے کو اپنے جوہری کی تلاش ہے- امید ہے کہ یہ فلم ان کے کریئر کے لئے سنگ میل ثابت ہوگی- رجت کپور، اپنے بھائی سے محبّت تو بہت کرتا ہے لیکن ساتھ ہی اپنی انا کے ہاتھوں بھی مجبور ہے، ایسے کردار ہمیں اپنے معاشرے میں بہت ملیں گے- ایک اور کردار جو شاید باؤ جی اور رشی دونوں پر حاوی رہا وہ ہے باؤ جی کی بیوی (سیما پہوا)، ایک روایتی عورت کی طرح چیختی چنگھاڑتی خاتون جو حقیقت میں گھر کی اصل سربراہ ہے اور سارا انتظام اسی کے ہاتھ میں ہے- دونوں میاں بیوی کے درمیان دلچسپ کیمسٹری دکھائی گئی ہے- جو جوڑا ایک ساتھ زندگی کی اٹھائیس بہاریں دیکھ چکا ہو اس کے بیچ اتنی ہم آہنگی تو ہونی ہی چاہیے۔
اس کے علاوہ کرداروں میں باؤجی کے چیلے چپاٹے، رشتہ دار، محلے والے جو گھر گھر کی معلومات رکھنا اپنا اخلاقی فرض سمجھتے ہیں۔ ایک اور کردار جس کا ذکر کرنا ضروری ہے وہ پنڈت جی کا لڑکا ہے، باؤ جی کی ٹرانسفورمیشن میں اس کا کلیدی ہاتھ ہے- فلم میں گانے نہ ہونے کے برابر ہیں- اور جو گانے دیے گئے ہیں ان سے فلم کی روانی پر کوئی اثر نہیں پڑتا- یوں کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ فلم میں گیت صرف منظر کی نوعیت کو نمایاں کرنے کے لئے استعمال کیے گئے ہیں- فلم میں دہلی شہر کی تنگ گلیوں اور اس میں رہنے والوں کو جس طرح فلم بند کیا گیا ہے اس کے لئے سنیماٹو گرافر، رافع محمود تعریف کے مستحق ہیں۔
سکرین شاٹ |
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ 'آنکھوں دیکھی' بہترین ڈائریکشن، سکرین پلے، ایکٹنگ اور سنیماٹو گرافی کا حسین امتزاج ہے- جو فلم بین روایتی بولی وڈ مصالحہ سے اکتا چکے ہیں انہیں 'آنکھوں دیکھی' ضرور پسند آئے گی۔
لیکن آپ میری باتوں پر یقین نہ کریں بلکہ خود دیکھیں اور سنیں پھر اپنے تجزیے کی بنیاد پر فیصلہ کریں- بقول باؤ جی کے اپنا انوبھو (تجربہ) خود حاصل کریں۔