بائیں بازو کی ناکامی
زمانہ طالب علمی میں کچھ دوست نما دشمنوں کے بہکاوے میں آکر ہم ایک بائیں بازو کی طلباء تنظیم سے منسلک ہو گئے اور قسم کھائی کہ ضیاالحق کی آمریت کے خاتمے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ اس قسم کے ٹھیک دس دن بعد ضیاالحق اپنے جہاز سمیت ہوا میں پھٹ گئے اور ہمیں شش و پنج میں مبتلا چھوڑ گئے کہ اب کیا کریں؟
سرخوں کے ساتھ گزارے ہوئے تین سال خوب گزرے، چائے سگریٹ کے تڑکے کے ساتھ لمبی لمبی میٹنگز، احتجاج، مظاہرے اور بھوک ہڑتال۔ مفلوک الحالی کا یہ حال کہ انتظار رہتا کہ کس دوست کو کب ٹیوشن کی فیس ملے گی اور ہمارے دو چار دن آسودگی سے گزر جائیں گے۔ گھر والوں کے استفسار پر ایک جذباتی تقریر کہ اس مرتے ہوئے ناکارہ نظام کا حقیر کیڑا بننے سے بہتر ہے کہ ہم اپنے آدرش، اپنے نظریات کے لیئے جان دے دیں۔
سرخوں نے پڑھایا بھی خوب، انسانی تاریخ سے لیکر جبلی مادیت تک، سیاسی اور سماجی نظام سے لے کر ارتقاء کے نظریات تک، سبط حسن صاحب کی دماغ کی الجھنوں کو سلجھنوں میں تبدیل کرنے والی تحریریں ہوں یا فیض صاحب کا دل پر نقش کر جانے والا کلام! پھر پڑھانے والے بھی اگر پروفیسر جمال نقوی، منصور سعید اور اظہر عباس جیسے لوگ ہوں تو کیا کہنے۔
آج دل پوچھتا ہے کہ بائیں بازو کی تحریک پاکستان میں کیوں نا کام ہو گئی؟
جو حال ہمارے معاشرے اور فرد کا ہے وہی حال بائیں بازو کا بھی ہوا۔ ہم نے کتابوں میں پڑھا کہ جھوٹ بولنا، دھوکہ دینا اور فراڈ غلط ہے، لیکن کتاب کی حد تک. ہم پڑھتے ہیں کہ رشوت لینا گناہ ہے، کتاب کی حد تک. ماں باپ، بہن بھائی، عزیزواقارب اور ہمسائیوں کے حقوق ہوتے ہیں، کتاب کی حد تک۔ ہماری کتابی دنیا کچھ اور ہے اور عملی زندگی کچھ اور. ہم کبھی کتاب کے پڑھے ہوئے کو اپنی عملی زندگی میں اپلائی نہیں کرتے۔
یہی حال سرخوں کا تھا، وہ بولتے کچھ اور تھے، نعرے اور باتوں کا لگاتے تھے، لیکن ان کی عملی زندگی اس سے دور ہوتی تھی۔ ہم بات کرتے تھے دولت کی منصفانہ تقسیم کی لیکن کتنے بائیں بازو کے لیڈر تھے جنہوں نے اپنی ذاتی ملکیت، اپنی جائیداد کارکنوں میں تقسیم کر دی ہو؟
بائیں بازو کی تنظیمیں چلانے والے زیادہ تر لوگ مڈل کلاس تھے۔ ان میں سے زیادہ تر لوگوں کا ایجنڈا بھی ذاتی ہوتا تھا ناکہ نظریاتی۔ کوئی شہرت چاہتا تھا تو کوئی دولت تو کوئی اپنے سے بلند طبقے میں چھلانگ چاہتا تھا۔
بائیں بازو کی ناکامی کی ایک اور وجہ میری ناقص رائے میں ذہانت کی کمی ہے۔ ہم نے مارکس اور لینن کے نظریات کسی مقدس کتاب کی طرح لیئے تھے کہ ان میں اتنی سی بھی تبدیلی کفر کے مترادف ٹہرتی تھی۔ جو خود مارکس کے فلسفے کے عین خلاف ہے۔
ہم نے کبھی اپنے معاشرے، اپنے لوگوں اور ان کی نفسیات کو پڑھنے کی کوشش نہیں کی۔ آج ہمارے معاشرے میں کمیونسٹ ہونے کا مطلب 'لادین' ہوتا ہے۔ جو حقیقتأ درست نہیں لیکن ہمارے لوگوں نے 'سرخوں' سے یہی سیکھا۔
بائیں بازو والے لوگ اس حقیقت کا کبھی ادراک نہیں کر سکے کہ ہمارے لوگ تعلیم سے دور ہیں اور مذہب کے نام پر طرح طرح لغو تصورات ان پر تھوپے گئے ہیں جن سے وہ اتنی آسانی سے جان نہیں چھڑا سکتے۔ وہ ملک جو مذہب کے نام پر بنا ہو وہاں آپ مذہب سے کنی کترا کر لوگوں کی جڑوں میں جگہ نہیں بنا سکتے ہیں۔
آپ کو شاید میری بات مذاق لگے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمارے یہاں لوگ مذہب کو نہایت سنجیدگی سے لیتے ہیں. اس کی مثال یہ ہے کہ آپ پاکستان کی کسی بھی بڑی یونیورسٹی کی کسی بھی subject کی فیکلٹی اٹھا کر دیکھ لیں آپ کو اسی فیصد لوگ باریش نظر آئیں گے۔
ذوالفقار علی بھٹو کا نعرہ کہ ہمارا مذہب اسلام، اور معشیت سوشلسٹ ہو گی لوگوں کے دل میں اتر گیا۔ اگر آپ پاکستان میں مذہب کو نفی کر کے سوشلزم لانا چاہیں گے یا سوشلزم کو نفی کر کے مذہبی نظام لانا چاہیں گے دونوں میں ناکامی ہو گی۔
تبصرے (2) بند ہیں