پارٹی میں انتخابات
جماعتِ اسلامی، پاکستان کے مرکزی سیاسی دھارے میں شامل واحد جماعت ہے جو داخلی سطح پر بھی جمہوری مشق کرتی ہے۔ ایک ایسے وقت میں کہ جب ملک کی زیادہ تر سیاسی جماعتیں موروثی بنیادوں پر خاندانوں کے زیرِ اثر ہیں، وہاں اتوار کو سہ فریقی انتخابات کے نتیجے میں، سراج الحق نے امیرِ جماعت منتخب ہو کر یہ نکتہ ایک بار پھر ثابت کردیا۔
یہ بات پورے جنوب ایشیا پر بھی صادق آتی ہے۔ ہندوستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت، انڈین نیشنل کانگریس کی قیادت پر نہرو خاندان کی اجارہ داری برقرار ہے اور اب راہول گاندھی، قیادت پر فائز نہرو وراثت کی پانچویں نسل ہیں۔
سری لنکا میں بندرا نائیکے خاندان کا تو دور گذرچکا لیکن بنگلہ دیش میں کئی دہائیوں سے خالدہ ضیا اور شیخ حسینہ واجد، بالترتیب اپنے شوہر اور والد کی، سیاسی میراث کے نام پر اجارہ داری برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
جماعتِ اسلامی کے جمہوری ڈھانچے سے متعلق یہ حقیقت ہے کہ وہ ایک نظریاتی جماعت ہے۔
پاکستان کے ابتدائی دہائیوں میں غفار خان کی جماعت بھی ایک نظریاتی سیاسی جماعت تھی۔ اس کا نام بھی کئی بار تبدیل ہوا تاہم غفار خان کی جماعت کے لیے اجمل خٹک کے بطور سربراہ انتخاب کے بعد، غفار خان کی یہ جماعت پھر خاندانی جماعت میں بدل گئی۔
ایک ناگزیر حقیقت یہ بھی ہے کہ اس طرح کی جماعتیں اصولوں پر نہیں بلکہ خاندان کے اندر جنم لینے والے تنازعات پر تقسیم ہوئیں۔ آج بیگم نسیم ولی خان خود اپنی جماعت کی سربراہ کررہی ہیں لیکن انداز وہی، ماورائے دیگر۔
پی پی پی اپنی مثال آپ ہے۔ بلاول بھٹو زرداری، سیاست میں بھٹو خاندان کی چوتھی نسل ہیں اور اب وہ بانی نانا، نانی اور والدہ کے بعد، مقبول جماعت کی سربراہی کرنے والے چوتھے بھٹو ہیں۔
ایک بار پھر، اس جماعت میں بھی تقسیم اصولوں پر نہیں تھی۔ مرتضی بھٹو کی بیوہ غنویٰ نے خاندان کی حریف جماعت سے خود کو مختلف کرنے کے لیے پی پی پی کے ساتھ 'شہید' کا اضافہ کردیا۔
پاکستان مسلم لیگ ۔ نون بھی شریف اجارہ داری کی مثال بن چکی، مریم اور حمزہ کو آگے آنے والے اہداف کی خاطر پروان چڑھایا جارہا ہے۔ نہایت حیران کُن بات یہ ہے کہ نون لیگ کی قیادت جاگیرداروں کے ہاتھ میں نہیں لیکن ان کے قائدانہ طور طریقے جاگیردارانہ قیادت والی جماعتوں سے کچھ مختلف بھی نہیں۔
بلوچستان میں، چھوٹے پیمانے پر مڈل کلاس کے ساتھ، اگر بلوچستان نیشنل پارٹی اور پختون خواہ ملّی عوامی پارٹی کی قیادت بھی باپ سے بیٹے کو منتقل ہو کر، انہیں خاندانی جماعتوں میں تبدیل کردیں تو اس پر کسی کو کوئی حیرت نہیں ہونی چاہیے۔
سیاسی جماعتوں پر خاندانی قبضے اور ان کے اندر انتخابات کے فقدان کے باعث، جمہوریت کے ساتھ سیاستدانوں کے پُرعزم ہونے کے دعوے کھوکلے نظر آتے ہیں۔
تبصرے (1) بند ہیں