گینگ آف گھوسٹس - ریویو
ستیش کوشک کی ڈائریکشن 'گینگ آف گھوسٹس' کو آپ کامیڈی کہیں گے؟ نہیں، ہارر کی کیٹگری میں رکھیں گے؟ جی نہیں- ہاں آپ اسے سال دو ہزار بارہ میں بننے والی بنگالی سماجی سیٹائر 'بھوتر بھبشیات ' کے ری میک کی ناکام ترین کوشش ضرور کہہ سکتے ہیں، جسے باکس آفس پر چلانے کے لئے بولی وڈ کے معروف اور تجربہ کار فنکاروں کا سہارا لیا گیا۔
آغاز ہوتا ہے ایک پرانے خستہ حال بنگلے سے جسے اکثر ڈائریکٹرز فلم شوٹنگز کے لئے استعمال کرتے ہیں، لوگ یہ نہیں جانتے کہ اس گھر کا اپنا ایک تاریک ماضی ہے، اور یہ مختلف بھوتوں کا مسکن ہے- اس راز پر سے پردہ اٹھاتا ہے ایک گمنام لکھاری راجو (شرمن جوشی) جو ابھرتے ہوئے فلم ڈائریکٹر (پرمبراتا چترجی ) کو اپنی سٹوری سناتا ہے- اس کی کہانی مختلف حالات اور ادوار سے تعلق رکھنے والے ایسے بھوتوں کے گرد گھومتی ہے جن کا مشترکہ ٹھکانہ یہی بنگلہ ہے اور اب لالچی لینڈ مافیا ان سے یہ آخری پناہ گاہ بھی چھین لینا چاہتا ہے- ظاہر ہے بھوت خاموش تو نہیں بیٹھیں گے انہیں کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی ہوگا۔
![]() |
سکرین شاٹ |
اگر سکرپٹ پر تھوڑی اور توجہ دی جاتی تو فلم اچھا بزنس کرسکتی تھی- کاسٹ کو اکھٹا کرنے اور فلم کے مقصد تک پنہچنے میں کافی وقت ضائع کیا گیا ہے- فلم کے نمایاں اداکار انوپم کھیر (گیندا مل )، چنکی پانڈے (گلاب مل )، سوربھ شکلا (بنگالی بابو)، اسرانی ( آتما رام)، جیکی شیروف (بابو ڈان) اور راجپال یادو (خواجہ اکبر خان - باورچی) اپنی مخصوص اداکاری کے خول سے باہر ہی نہیں نکل پائے، جبکہ اداکاراؤں میں ماہی گل (منورنجنا کماری) غزالی آنکھوں اور گہری سانسوں کے بیچ انیس سو پچاس کے زمانے کی ہیروئن بننے میں ناکام رہیں- تمام کردار مختصر اور قدرے منتشر نظر آتے ہیں ڈائریکٹر ان سب کو ایک سیکوئنس میں نہیں رکھ پائے۔
فلم میں مزاح کے پردے میں بڑھتی ہوئی اربنائزیشن کے مضمرات پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے، نتیجتاً ڈائریکٹر دونوں میں ناکام رہے- آغاز میں کاسٹ کے تعارف تک تو کہانی دلچسپ رہی لیکن فلم کے نصف تک پہنچتے پہنچتے اس میں بتدریج کمی آتی جاتی ہے اور اختتام تک آپ اس سے بیزاری محسوس کرنے لگتے ہیں- حالانکہ فلم کو ایک چونکا دینے والا اختتام دے کر ڈائریکٹر نے کہانی میں ٹوئسٹ دینے کی کوشش تو کی ہے، بہرحال وہ اس میں بھی ناکام رہے ہیں۔
![]() |
سکرین شاٹ |
فلم کا آئیڈیا تو بہت اچھا ہے، مختلف سماجی، لسانی علاقائی اور تاریخی پس منظر سے تعلق رکھنے والے لوگوں (بھوتوں) کی مدد سے ایک سماجی پیغام پیش کرنے کی مخلصانہ کوشش کی گئی ہے- قدیم عمارتیں ثقافتی ورثہ ہیں، بڑھتی ہوئی اربنائزیشن سے انسان تو انسان، بھوت بھی نالاں ہیں، ہندوستان میں مختلف شناخت کے حامل لوگ ضرور آباد ہیں مگر یہ سب آپس میں متحد ہیں وغیرہ وغیرہ- لیکن ان سب کو مزاح، پراسراریت، ڈرامہ اور گلیمر کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش میں فلم کچھ رنگ نہیں جما پائی۔
فلم میں کامیڈی تاثر دینے کے لئے کچھ معنی خیز، ریجنل لطیفے بھی استعمال کیے گئے جو اکثر زبان کے اختلاف سے پیدا ہوتے ہیں، جیسے 'گیندا مل' کو 'گینڈا مل' کہنا، حتیٰ کہ آتما رام (اسرانی) کی موت کی کہانی میں چند سال پیشتر فلم ایکٹر سلمان خان کے ساتھ ہونے والے واقعہ پر بھی چوٹ کی گئی- اس کے علاوہ ایک پیروڈی گانا بھی شامل کیا گیا ہے، بہت عرصہ بعد بولی وڈ فلموں میں پیروڈی گانوں کی انٹری دیکھنے میں آئی ہے، اگر 'گینگ آف گھوسٹس' کامیاب ہوجاتی تو ممکن ہے پیروڈی گانوں کا ٹرینڈ ایک بار پھر چل نکلتا۔
اس کے علاوہ سوائے شروعات میں رنجنا کماری کے دو گیتوں کے، باقی تمام گانے غیر ضروری اور قدرے ناگوار ہیں خصوصاً بھوت کلب کا آئٹم سونگ- فلم میں اتنے سارے گانوں کی کوئی ضرورت نہیں تھی- موسیقی بے جان ہے اور گانوں کی ٹائمنگ غلط ہے۔
![]() |
سکرین شاٹ |
فلم کی دیگر کاسٹ میں وجے ورما (موسیقار- رابن ہودہ)، میرا چوپڑا (امیر زادی- ٹینا چوپڑا)، یشپال شرما (بریگیڈیر ہوشیار سنگھ)، جے.برینڈن ہل (مسٹر رامسے) اور راجیش کھتر (بھوتیریا) شامل ہیں۔
گینگ آف گھوسٹس، وینس ریکارڈز اینڈ ٹیپس پرائیویٹ لمیٹڈ اور ستیش کوشک انٹرٹینمنٹ کی مشترکہ پیشکش ہے- موسیقی، دھرم سندیپ نے تشکیل دی ہے، جبکہ گیت نگار ستیش کوشک، قتیل شفائی، اور وکاس کمار ہیں۔ اس کا دورانیہ ایک سو اٹھائیس منٹ ہے۔