انگلش: صرف ایک سبجیکٹ؟
پاکستان میں انگریزی زبان کی تعلیم، کلاس یا طبقے کی بنیاد پر فراہم کی جاتی ہے کہ ملک کا تعلیمی نظام، اس طرح پروگرام کیا گیا ہے کہ مختلف اقتصادی حیثیت کے افراد کو مختلف سطح کی انگریزی تعلیم دی جائے-
جو استطاعت رکھتے ہیں وہ مہنگے اور بڑے نجی اسکولوں میں جاتے ہیں جہاں انہیں بہتر تعلیمی مواد، مستند ماحول اور مکمل تربیت یافتہ ٹیچرز میسر ہوتے ہیں جبکہ غریب اور کم آمدنی والے خاندانوں کو معاشرے میں رائج معیار کے مطابق انگریزی سیکھنے کا موقع بھی نہیں ملتا-
اوپر لکھی گئی باتیں، برٹش کونسل کی طرف سے کی جانے والی ایک ریسرچ رپورٹ کے اہم نتائج میں شامل ہیں جس کا عنوان ہے "آج کے پاکستان میں انگریزی زبان؛ کلاس اور کام کی جگہ پر زبان کے استعمال میں تبدیلی"- کونسل نے پچھلے بدھ اس رپورٹ کے نتائج کا خلاصہ ایک مقامی ہوٹل میں جاری کیا- مکمل رپورٹ دو ایک ماہ میں جاری کر دی جائے گی-
رپورٹ کے مطابق، پاکستانی معاشرے میں نام نہاد انگریزی میڈیم اسکولوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے جہاں یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ پڑھائی، انگریزی میں ہوتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ بچوں اور ٹیچروں کے درمیان تمام تر گفتگو اور کمیونیکشن اردو ہی میں ہوتی ہے-
رپورٹ کے مطابق، انگریزی کو ایک زبان کے بجائے ایک مضمون کے طور پڑھایا جاتا ہے جو کہ صرف چالیس منٹ کی کلاس تک ہی محدود ہوتا ہے- رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ شہری اور دیہی سطح پر بھی انگریزی پڑھانے میں خاص واضح فرق ہے جہاں شہروں میں مقیم افراد کو انتخاب اور معیار کے اعتبار سے دیہی علاقوں کے مقابلے میں بہتر تعلیمی سہولیات میسر ہیں-
رپورٹ کے مطابق، انگریزی پاکستانی معاشرے کی جڑوں میں گہرائی تک اتر چکی ہے اور یہ بھی کہا گیا کہ پاکستان انگریزی بولنے والی دنیا میں کا ایک بہت بڑا حصہ ہے جس کے بارے میں دعویٰ کیا گیا کہ یہاں آبادی کا تقریباً اننچاس فیصد حصہ انگریزی بول سکتا ہے-
پالیسی کے حوالے سے ہونے والے مکالمے میں تقریر کرنے والوں کا کہنا تھا کہ انگریزی پاکستان میں پھل پھول رہی ہے اور بیرونی دنیا کیلئے ایک کھڑکی کا کام کر رہی ہے-
بیکن ہاؤس نیشنل یونیورسٹی کے ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے ڈین، ڈاکٹر طارق رحمٰن کا کہنا تھا کہ ہر پاکستانی بچے کیلئے قومی زبان کے حوالے سے کوئی یکساں پالیسی نہیں- انہوں نے بتایا کہ ریاست اور صوبے ایک ہی وقت میں مختلف مقاصد کے حصول میں لگے ہوئے ہیں-
یونیورسٹی آف برمنگھم کے ایک ریسرچ فیلو، پروفیسر کرس کینیڈی نے زور دیا کہ بچوں کو ابتدائی تعلیم ان کی مادری زبان میں دینی چاہئے-
فری لانس کنسلٹنٹ، جان مک گوورن نے اس بات کی نشاندہی کی کہ پاکستان میں قومی زبان کی پالیسی اور اصل صورتحال میں جو ہوتا ہے، اس حوالے سے ابہام موجود ہے- ان کا کہنا تھا کہ ایک مضبوط پالیسی کی غیر موجودگی میں تمام مجوزہ حکمت عملی اور اسٹریٹجی ناکام ہوں گی-
ساؤتھ ایشین ریجن کے لئے برٹش کونسل کے ریجنل ڈائریکٹر، اسٹیفن رومن کا کہنا تھا کہ انگریزی ایک عالمی رجحان بن چکی ہے اور برطانیہ اس پر اکیلے دعویٰ نہیں کر سکتا- ان کا کہنا تھا کہ انگریزی تیزی سے پاکستان سمیت دنیا بھر میں پھیل رہی ہے-
تاہم انہوں نے بتایا کہ ٹیچرز میں انگلش/انگریزی کی مہارت کا معیار بہت لو ہے اور پنجاب میں تقریباً نوے فیصد ٹیچرز مختلف مضمون انگریزی میں نہیں پڑھا سکتے- رومن نے بتایا کہ برٹش کونسل انگریزی زبان کے فروغ اور ترویج کے لئے مخلف پروگرامز اور منصوبوں میں سرمایہ کاری کر رہی ہے-
انہوں نے یقین دلایا "آنے والے دنوں میں تعلیم ہی پاکستان کا سب سے بڑا اثاثہ ہو گی- برطانیہ انگریزی زبان کے تمام منصوبوں اور سرگرمیوں کی حمایت جاری رکھے گا"-
برٹش کونسل کے پنجاب ڈائریکٹر، رچرڈ وئیرز نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان میں انگریزی زبان کی ترویج اور ترقی کے لئے سب کو یک زبان ہو کر آواز اٹھانے کی ضرورت ہے- ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی اسکولوں اور کالجوں میں زیر تعلیم صرف تین فیصد طلباء کی رسائی ان نجی تعلیمی اسکولوں تک ہے جو باقاعدہ اور صحیح طریقے سے انگریزی زبان پڑھا رہے ہیں جبکہ بقایا ستانوے فیصد طلباء ان سرکاری اسکولوں کے رحم کرم پر ہیں جہاں انگریزی پڑھانے کا کوئی مستند، موثر طریقہ یا اسباب موجود نہیں- انہوں نے مزید بتایا کہ برٹش کونسل کی لاہور میں لائبریری اس سال کے آخر سے دوبارہ کام کرنے لگ جائے گی-
صحافی اور لکھاری، غازی صلاح الدین نے کہا کہ انگریزی یا کسی بھی دوسری زبان میں مہارت اس وقت تک یقینی نہیں بنائی جا سکتی جب تک اسکولوں میں تعلیم کے لئے آنے والوں کو ابتدا میں ان کی مادری زبان میں تعلیم فراہم نہ کی جائے- ان کا کہنا تھا کہ بچوں کی ذہانت تراشنے کے لئے انہیں صرف ان کی مادری زبان میں تعلیم دینی چاہئے- انہوں نے کہا کہ جب تک اس حقیقت کو تسلیم نہیں کیا جاتا، انگریزی پاکستان میں ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنی رہے گی-
عالم لسانیات (زبانوں کے ماہر)، ڈاکٹر شاہد صدیقی نے پاکستان میں زبانوں کے ارتقاء کے حوالے سے تاریخی پس منظر بیان کیا- زبان اور معاشرے کے درمیان تعلق پر زور دیتے ہوئے، انہوں نے لسانی دارالحکومت کو کسی بھی معاشرے کو اقتصادی، ثقافتی اور سماجی سرمایہ فراہم کرنے کے لئے اہم قوت قرار دیا- ان کا کہنا تھا کہ آزادی کے بعد، اردو ایک مضبوط زبان کے طور پر ابھری تھی اور آج کے دور میں یہی بات انگریزی پر لاگو ہوتی ہے-
ڈاکٹر صدیقی نے بتایا کہ آج پاکستان میں بولی جانے والی 67 میں سے 27 زبانیں خطرے سے دوچار ہیں-
اس سے پہلے برٹش کونسل کے ڈائریکٹر انگلش، ڈاکٹر مسرت شاہد نے ریسرچ کے حوالے سے کلیدی نکات کے بارے میں بتایا اور اس عزم کا اظہار کیا کہ کونسل، انگریزی زبان کی بڑھتی ڈیمانڈ اور مکمل طور پر لیس اداروں کی سپلائی کے حوالے سے موجود خلا کو پر کرنے کیلئے ہرممکن کوششیں جاری رکھے گی-
انہوں نے پنجاب میں، برٹش کونسل کی طرف سے شروع کئے جانے والے پنجاب ایجوکیشن اینڈ انگلش لینگویج انیشیٹو (PEELI) کی نمایاں خصوصیات پر بھی روشنی ڈالی-
ترجمہ : شعیب بن جمیل