دنیا کا نیا پنچنگ بیگ: پاکستان
دو ہفتہ قبل، آٹھ مارچ دو ہزار چودہ کو غائب ہونے والی ملائشین ایئرلائنز کی بدقسمت فلائٹ ایم ایچ تھری سیونٹی کی کہانی بلآخر اپنے انجام کو پہنچ گئی-
دو سو انتالیس مسافروں پر مشتمل ہوائی جہاز کی گمشدگی نے پوری دنیا میں ہلچل مچا دی تھی- بڑے پیمانے تلاش شروع کردی گئی- اس کارروائی میں کوئی پندرہ ممالک شریک تھے- اس حوالے سے بہت سے اندازے لگاۓ گۓ اور قیاس آرائیاں کی گئیں-
عالمی تجزیہ نگار اس گمشدگی کو نائن الیون کے پسمنظر میں دیکھنے لگے اور ظاہر ہے جب بات نائن الیون اور ممکنہ دہشتگردی کی ہو تو سب سے پہلا شک پاکستان پر ہی جاتا ہے-
چنانچہ غیر ملکی تجزیہ کاروں نے یہ خیال ظاہر کیا کہ فلائٹ ایم ایچ تھری سیونٹی کو ہائی جیک کر کے پاکستان اتار لیا گیا ہے گو کہ اس حوالے سے کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کیا جاسکا معاملہ صرف قیاس آرائی تک ہی محدود رہا لیکن پھر بھی معروف غیرملکی جریدوں اور الیکٹرانک میڈیا پر اس کی خوب تشہیر کی گئی-
دو مئی دو ہزار گیارہ کو ایبٹ آباد میں ہونے والے واقعے کے بعد سے دنیا کو جیسے پاکستان کی شکل میں ایک پنچنگ بیگ مل گیا ہے، دنیا بھر میں ہونے والی تخریب کارانہ کارروائیوں کا سلسلہ کہیں نہ کہیں پاکستان سے جڑ جاتا ہے-
اب تک اس طرح کی الزام تراشی پاکستان کے پڑوسی ممالک ہندوستان اور افغانستان ہی تک محدود تھی لیکن اب اس کے جراثیم دیگر ممالک میں بھی پھیل رہے ہیں-
فلائٹ ایم اچ تھری سیونٹی کی گمشدگی اور تباہی ایک بہت بڑا المیہ ہے- اس پورے واقعے میں پاکستان پر ممکنہ دہشتگردی کا جو الزام لگایا گیا (بطور قیاس ہی سہی) وہ افسوسناک ہے، لیکن اس سے بھی زیادہ افسوسناک پہلو اس تجزیہ پر قومی میڈیا اور عوام کا ردعمل ہے-
قومی میڈیا پر ناصرف اس خبر کو بار بار پیش کیا گیا بلکہ اسی پہلو پر ٹاک شوز بھی کیے گۓ، دوسری جانب عوام نے اس خبر کو سنا اور تسلیم بھی کر لیا کہ پاکستان ایسی کسی کارروائی میں ملوث بھی ہوسکتا ہے-
عوام کی ذہنی شکستگی کا اس سے بڑا مظاہرہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ ہم اپنے وطن عزیز کے بارے میں کچھ بھی سننا گوارہ کرلیتے ہیں بلکہ اس پر یقین بھی کر لیتے ہیں- ہر وقت 'غیرت کا ڈھول' پیٹنے والی قوم کو اپنے وطن اور اس کے وقار سے کتنا جذباتی لگاؤ ہے اس ایک واقعے سے واضح ہوگیا ہے کہ وطن سے متعلق ہر طرح کے سازشی نظریے کو سچ مان لیتے ہیں-
ایبٹ آباد واقعے نے یقیناً عالمی برادری میں پاکستان کی ساکھ کو ٹھیس پہنچائی ہے، اس سے ملک کے حکمران طبقوں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی نا اہلی کا پتا چلتا ہے لیکن اسکا یہ مطلب نہیں کہ ہر معاملے میں پاکستان پر براہ راست انگلی اٹھائی جاۓ اور یہ مطلب تو ہرگز نہیں کہ ہم ہر طرح کے بے سروپا الزامات خاموشی سے سن لیں-
اس حوالے سے ایک بلاگ میری نظر سے گزرا جس میں مصنف کو اس بات کی فکر تھی کہ اگر یہ بات سچ ہے تو وہ بیرون ملک اپنے دوستوں کو کیا منہ دکھائیں گی- اور وہ کس طرح پاکستان کو بہترین ملک کہہ پائیں گی- ساتھ ہی انکا یہ بھی خیال تھا کہ اگر اسامہ بن لادن ایک طویل عرصے بنا کسی سراغ کے پاکستان میں چھپ سکتا ہے تو پھر ایک کمرشل ہوائی جہاز کیوں نہیں-
بلاگر کو شاید علم نہیں کہ ایک انسان میں اور ہوائی جہاز میں بہت فرق ہوتا ہے- خیر یہ صرف ایک مثال تھی اس ذہنی رجحان کی جو ہماری عوام اپنے وطن عزیز کے لئے رکھتی ہے-
نائن الیون کے بعد سے پاکستان مستقل عالمی طاقتوں کے ریڈار میں ہے اور اس طرح کے ابہام سے پاکستان کی ساکھ متاثر ہو رہی ہے- دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی طرف سے دی جانے والی قربانیوں کا صلہ شک اور طعنوں کی شکل میں دیا جا رہا ہے حالانکہ اس جنگ میں فی الوقت سب سے زیادہ نقصان پاکستان ہی اٹھا رہا ہے-
عالمی طور پر پاکستان کو ایک دہشتگرد ملک ثابت کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں اور اس آگ میں دہشتگردوں کے حوالے سے موجودہ حکومت کی پالیسی نے مزید تیل ڈالا ہے-
پاکستان کو مزید ذلّت سے بچانے کے لئے دہشتگردی کے حوالے سے پالیسی پر نظرثانی کی ضرورت ہے- اپنے 'بھائی' یا 'اسٹیک ہولڈرز' کہہ کر حقیقت پر پردہ نہیں ڈالا جاسکتا، یہی حال رہا تو ایبٹ آباد جیسا کوئی واقعہ پھر پیش آۓ گا اور ایک بار پھر ملک کی سالمیت اور خودمختاری مزاق بن جاۓ گی-
عالمی برادری میں پاکستان کے وقار کو بچانے کیلئے ضروری ہے کہ اس طرح کی قیاس آرائیوں اور بے سروپا دعووں پر فوری توجہ دی جاۓ اور ذمہ دار جریدوں یا ٹی وی چینلز کو تنبیہہ کی جاۓ کہ بنا ثبوت محض اندازوں کی بنیاد پر پاکستان کے حوالے سے منفی خیالات پھیلانے سے گریز کریں-
آخر میں پاکستانی عوام سے التماس ہے کہ پاکستان کے حوالے سے بنا ٹھوس ثبوت ہر طرح کے نریٹو پر یقین کرلینا حب الوطنی نہیں- اور ایسی گمراہ کن خبروں پر بھی اتنا نہ سہی تو کم زکم آدھا ردعمل ضرور ظاہر کریں جتنا آپ مذہبی معاملات پر کرتے ہیں- یہ نہ بھولیں کہ ہم سب پاکستانی ہیں اور یہ وطن عزیز ہماری شناخت ہے-