خدا کی محبت
یہ تصور خاصا عام اور مقبول ہے کہ مسلمان، خدا سے محبت کے مقابلے میں ڈرتے کہیں زیادہ ہیں- جیسے جیسے یہ تصور جڑ پکڑتا گیا، مذہب کا تعزیراتی پہلو بھی اس کے ساتھ ساتھ پنپتا گیا-
اس پر اکثر تفصیل میں گفتگو کی جاتی رہی ہے- تاہم تصوف کے علاوہ خدا سے محبت یا خدا کی محبت کے بارے میں مکالمہ یا بحث تلاش کرنا مشکل ہے جیسے عام مسلمانوں میں خدا سے محبت اور اس کی جانب سے محبت کیا جانا یا کم از کم ایسے مقصد کا تصور بھی محال ہے-
قرآن اور اس کی تفسیروں کو پڑھنے اور تلاش کرنے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ خدا کی انسان سے محبت کا مثبت انداز سے ذکر بیس بار آیا ہے جبکہ اتنی ہی بار منفی انداز میں اس کا ذکر کیا گیا ہے- اور جہاں بھی ایسا ہوا ہے وہاں اس نے انسان کی وہ برائیاں بیان کیں ہیں جنکی وجہ سے وہ محبت نہیں کرتا-
دونوں ہی صورتوں میں، خدا نے بتا دیا ہے کہ وہ کیا چاہتا ہے کہ انسان اپنے لئے کیا منتخب کرے- ایک 'مشروط محبت' کے مقابلے میں اس محبت کی گہرائیوں کا اندازہ لگانا ممکن ہی نہیں-
جو بھی اپنی دولت کا گھمنڈ کرے گا، دوسروں کے ساتھ غلط کرے گا، سود خوری میں ملوث ہو گا، وسائل کو ضائع کرے گا، زیادتیوں کا ارتکاب کرے گا، زمین پر افراتفری پھیلائے گا، تکبر، اور خیانت کے گناہوں کا ارتکاب کرے گا، اسے خدا کی محبت حاصل نہیں ہو گی-
خدا ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اچھے کام کریں، مہربان ہوں، عادل اور انصاف کرنے والے ہوں، جو پرامن رہیں، وعدوں کی پاسداری کریں اور معاف کریں، صبر اور خدا پر پختہ یقین رکھیں اور اس کے نبی محمّد کی پیروی کریں-
قرآن، انسانیت کیلئے خدا کی طرف سے انتباہ سے بھرا پڑا ہے کہ وہ کائنات کی نشانیوں اور ان قوموں کے نشانیوں سے سیکھے، جنہیں اس کے احکامات سے انحراف اور خلاف ورزی پر تباہ و برباد کر دیا گیا-
ان نشانیوں سے انسان کو اس ثبوت ملتا ہے کہ خود اس کا حشر کیا ہو گا اگر اس نے نیکی کے بجائے گناہ کو اپنایا، اپنی خواہشات کی پیروی کی اور خدا کے رسولوں سے ہدایت لینے کے بجائے شیطان کے ورغلانے میں آ گیا-
اس انتباہ کو بار بار دہرا کر، خدا نے انسان کی قسمت کے بارے میں اپنی گہری تشویش سے آگاہ کیا ہے کہ وہ اپنی کمزوریوں پر، اگر ضرورت پرے تو مارے خوف کے، قابو پانے کس کوشش کرے تا کہ جہنم کی آگ سے بچا جا سکے جو دوسرے منحرفین کا انتظار کر رہی ہے جنہوں نے مسلسل تنبیہ پر دھیان نہیں دیا اور نبیوں اور رسولوں کی جانب سے ملنے والی براہ راست ہدایت پر عمل نہ کیا-
خدا نے اپنی کتاب میں جن دوسری نشانیوں کا ذکر کیا ہے وہ اس کی نہ ختم ہونے والی اور بے حساب نعمتیں ہیں جو اس نے ہم کو اپنے فضل و کرم سے عطا کی ہیں-
تخلیق میں اتنا تنوع کہاں سے آیا؟ فطرت کے عناصر کو احکامات دینے کا منبع کہاں ہے؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ زمین پر ہر جگہ، انسان کی ضروریات پوری ہو رہی ہیں اور یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ مسلسل، دانشورانہ، جسمانی اور روحانی کارنامے انجام دے رہا ہے؟
ہزاروں برس سے ایک دوسرے کے پیچھے چلنے والا دن اور رات کا یہ نظام کیسے بغیر کسی وقفے یا تھکان کے جاری ہے؟ دنیا کی خوشیاں اور لذتیں، حواس، خوبصورتی کی تعریف اور اس سے محبت کرنے کی صلاحیت کوئی چھوٹی نعمتیں تو نہیں-
اس کے باوجود ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ہمارا حق ہیں اور ہمیں ایسے ہی حاصل ہو گئیں حالانکہ یہ تو اس کی جانب سے عطا کی گئیں ہیں جس کی محبت سب سے برتر اور عظیم ہے- اس کے باوجود جب بھی ہم اسکا ذکر کرتے ہیں تو ڈر اور خوف سے ہی کرتے ہیں-
ہم خدا سے محبت ایسے کر سکتے ہیں کہ اسے یاد کریں اور رکھیں، اس کے احکامات کی ہر ممکن پیروی کریں، اور اس کے رسول محمّد نے ہمیں جو اپنی سنت کی شکل میں دیا ہے اس کا اتباع کریں اور اس زندگی میں جس چیز کی بھی ضرورت ہو، اسی سے مانگیں-
اپنی ضروریات پوری کرنے کیلئے دوسروں پر بھروسہ کرنا ہمیں چھوڑنا ہو گا کہ وہ صرف خدا ہی ہے جو ہماری ہر ضرورت کو پورا کر سکتا ہے- خدا سے ہماری محبت ایسے بھی بڑھ سکتی ہے کہ ہم یہ کامل یقین رکھیں کہ ایسے اعمال اور حرکتوں سے خدا ناراض ہوتا ہے جو دوسرے انسانوں کو تکلیف پہنچانے کا سبب بنیں، چاہے وہ وہاں موجود ہوں یا نہیں-
وہ ایسی مسجدوں اور مدرسوں میں نہیں ملے گا جہاں سے نفرت اور مذہب کے مسخ شدہ پیغامات پھیلائے جاتے ہیں- وہ خود کو ایسی جگہ سے دور کر لیتا ہے جہاں دروس میں دوسروں کا، بشمول دوسرے مذاہب اور فرقوں کے ماننے والوں کا مضحکہ یا برائی کی جاتی ہو- وہ ایسے مواقع اور جگہوں سے دور ہو جاتا ہے جہاں لوگ وسائل کو ضائع کریں اور تکبر کریں-
خدا تو شاید زندگی کے سادہ اور آسان طریقوں میں پایا جائے- اگر کوئی اس سے روزانہ کی بنیاد پر گفتگو کر سکے تو اسے بلآخر، اپنے دل ہی میں پائے، جو اس کیلئے بہترین جگہ ہے-
تو کیا خدا ڈرنا چاہئے بھی کہ نہیں؟ اپنے گناہوں کے نتائج سے خوفزدہ نہ ہونا مشکل ہی ہے خاص طور پر اگر کوئی اس پر ایمان رکھتا ہے کہ خدا کے ننانوے صفاتی ناموں میں ایک مکمل اور کل انصاف کرنے والا ہے-
اگر وہ ایسا کرنے لگے تو وہ ہر ایک کو اپنی نوازشوں اور کرم سے نہ نوازے کہ اسے تو سب سے محبت ہے، وہ ان کو بے نام کو نشان کر دے جنہوں نے اس کی تنبیہ پر کوئی توجہ نہیں دی- ورنہ پھر انصاف تو نہ ہوا-
لہٰذا ہر ایک کسی کو اپنے اعمال کے نتائج اور مضمرات سے خوفزدہ ہونا چاہئے-
لکھاری ایک فری لانس کنٹریبیوٹر ہیں جنہیں مذہب میں دلچسپی ہے-
ترجمہ: شعیب بن جمیل