• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

کہانیاں کہنے کی ضرورت

شائع March 30, 2014
لبرل پاکستانیوں نے کہانیاں کہنا اور سننا بند کر دیا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ زیادہ قدآمت پسند اور کٹر علم دشمن عناصر نے اس کا فائدہ اٹھا کر ان کی خالی جگہ بھردی ہے-
لبرل پاکستانیوں نے کہانیاں کہنا اور سننا بند کر دیا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ زیادہ قدآمت پسند اور کٹر علم دشمن عناصر نے اس کا فائدہ اٹھا کر ان کی خالی جگہ بھردی ہے-

پچھلے دنوں ایک دلچسپ نکتہ ایک ادبی تقریب میں اٹھایا گیا تھا- ایک پینلسٹ کا مشاہدہ تھا کہ باوجود کہ کراچی تہذیبی اعتبار سے اتنا ہی متنوع شہر ہے جیسا کہ لاہور لیکن اس کی شہرت عموما اس حوالے سے ایسی نہیں ہے- زیادہ تر لوگوں کی نظر میں کراچی جرائم اور سیاسی تشدد کے حوالے سے جانا جاتا ہے یا شاید تجارت اور صنعت کی وجہ سے- ان لوگوں یا مختلف گروہوں کی وجہ سے نہیں جو دوسرے علاقوں سے وہاں آکر بس گئے ہیں اوراس شہر کو اپنا گھر کہتے ہیں-

اس بات کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں اور ایک وجہ جو ان لکھاریوں کی نظر میں قابل ذکر ہے کہ کراچی نے ابتک کسی بھی ہم عصر کہانی میں اپنی جگہ نہیں بنائی ہے --- اس گفتگو کی خاطر--- کم ازکم جو انگریزی زبان میں لکھی گئی ہیں--- کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کراچی کا بالکل کہیں ذکر نہیں لیکن جتنا کچھ لاہور کے بارے میں لکھا گیا ہے اس کی حقیقتوں کو مد نظررکھ کر،

وہ شہر جہاں سب سے زیادہ زبانیں بولی جاتی ہیں (جو رنگا رنگی اور مختلف تہذیبوں کے امتزاج کی صرف ایک نشانی ہے ) اسے بہت ہی کم نمائندگی ملی ہے-

اس دلیل میں وزن ہے- کہانیاں عام انسان کی فکر کو متاثر کرتی ہیں اور ایسی کہانیاں کہنے کیلئے ان لوگوں سے بہتر کون ہوگا جن میں ایک معمولی چیز کو ایک ایسی خاص شے بنا دینے کی اہلیت ہو جو اپنا ایک الگ روپ پڑھنے والوں اور دیکھنے والوں کے ذہنوں میں دھار لے - کیونکہ کہانیاں صرف کتاب ہی کی شکل میں ہونا ضروری نہیں ہے-

ایک پینلسٹ نے ممبئی کی سحرانگیزی کا ذکر کیا، اس ذہنی وابستگی اور لگاؤ کا جو لوگوں کو اس شہرسے ہے جس کی وجہ وہ ساری کہانیاں ہیں جوبالی ووڈ نے پچھلی کئی دہائیوں میں بُنی ہیں اور دوسرے بہت سارے واقعات جو یہ کہانیاں سناتی ہیں-

مشکل یہ ہے، پاکستان میں عام طور پر ان کہانیوں یا تہذیب کے اس پہلو کی اتنی اہمیت نہیں- اس بات پر یقیناً بحث ہوسکتی ہے کہ لوگوں سے یہ امید رکھنا زیادتی ہے- جب کہ لوگ پہلے سے ایسی چیزوں میں الجھے ہوئے ہیں جو ان کی زندگیوں اور رزق ومعاش کے لئے فوری خطرے کا باعث ہو، ہر دن کی روزی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہوں یا اپنے تحفظ کی، حقوق کو یقینی بنانے کی کوششوں میں الجھے ہوئے ہوں اور یہ پاکستان کے ایسے بھیانک اور مہیب مسائل ہیں خصوصا کراچی کےلئے کہ لوگوں کے پاس کہانیاں کہنے یا سننے کی عیاشی کی کوئی گنجائش نہییں ہے-

یہ درست ہو سکتا ہے، لیکن اس کے مخالف بھی دلیلیں ہیں- وہ یہ کہ، کیونکہ لبرل پاکستانیوں نے کہانیاں کہنا اور سننا بند کر دیا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ زیادہ قدآمت پسند اور کٹر علم دشمن عناصر نے اس کا فائدہ اٹھا کر ان کی خالی جگہ بھردی ہے-

آپ کسی فٹ پاتھ پرکتابوں کی دکان پر نظر ڈالئے، تو آپ کو ایسی کتابیں زیادہ نظر آئینگی جو تنگ نظری کے نقطۂ نظر کا پرچار کرتی ہیں نہ کہ اس کے بر عکس- جیسا کہ سب جانتے ہیں، انتہا پسند عناصر کئی سالوں سے ایسے اشتہارات اور ایسا ادب چھاپ رہے ہیں جس میں ملک کو اس طرح نظر آنا چاہیئے جن سے ان کے ورژن اور نظریوں کی نمائندگی ہوتی ہو اور جو ان کے خیال میں پاکستانیوں کی آئیڈیولوجی ہونا چاہئے-

وہ اس قسم کے مواد کو اتنی آزادی سے کس طرح پھیلانے میں کامیاب ہوتے ہیں، حکومت یا صوبائی حکام کی طرف سے کسی بھی مداخلت کے بغیر، جو واقعی ایک راز ہے، یا تاریخی نااہلی---- اس معاملے میں صلاحیت کی کمی اور بے چارگی جیسے الفاظ بھی ذہن میں آتے ہیں---- جو ان اداروں کی ناکامی کی ایک وجہ بھی ہوسکتی ہے-

وجوہات سے قطعہ نظر، یہ ناخوشگوار حقیقت اپنی جگہ موجود ہے، ایسی بہت سی واقعاتی شہادتیں موجود ہیں جومعاشرتی مزاج میں ان کے خیالات اور کہانیوں کو قبولیت دے رہے ہیں، جو پاکستان میں رجعت پرستی کا نشان ہیں- وہ ادب جوانتہائی دایاں بازو تخلیق کررہا ہے، ایک تکلیف دہ رخ ہے- مگر اس کا دوسرا رخ بھی ہے اور وہاں بھی بہت کچھ ہورہا ہے-

بچوں کے ایک ادبی میلے میں جو پچھلے دنوں کراچی میں منعقد ہواتھا، جس میں بچے یا کم عمر پڑھنے والوں کو دلچسپی ہوسکتی تھی، چاہے وہ مشرف علی فاروقی کی ٹک ٹک دی ماسٹر آف ٹائم ہو یا آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کی کلاسیکی اردو سیریز کی خوبصورت کتابیں ہوں، ہر ایک قابل تعریف کتاب کے ساتھ تین ایسی کتابیں تھیں جو کہ متنازعہ سمجھی جاسکتی تھیں (ان معنوں میں کہ وہ پڑھنے والوں کے ذہن پر کس قسم کے نظریئے یا اثرات مرتب کریں گی)

ان میں سے ایک اسی قسم کی کتاب جس کا نام جیوے جیوے پاکستان تھا جس کے سرورق پرلکھا تھا کہ یہ چار سے پانچ سال کی عمر سے زیادہ کے بچوں کیلئے ملی نغموں، یا قومی ترانوں کا ایک مجموعہ ہے -

مجھے امید تھی کہ اس میں عموماً پی ٹی وی کے یوم آزادی کے ترانے ہونگے، لیکن اس کے بجائے اس میں پہلی چار نظمیں، جو میں نے پہلے کبھی نہیں سنی تھیں، مذہب اور اس پر مکمل ایمان سے متعلق تھیں- اگلی پانچ نظمیں، جن میں سے ایک کے بارے میں مجھے معلوم تھا، وہ سب پاکستان اوراسلام کے ہم معنی ہونے کے بارے میں تھیں- باقی آپ خود سمجھ لیں- اقبال کی بچوں کی وہ نظم، لب پہ آتی ہے دعا جسے میں ڈھونڈھ رہی تھی وہ مجھے اس میں کہیں نہیں ملی-

کہنے کیلئے کہانیاں بہت ہیں، اور بہت سی ایسی ہیں جوبہتر طریقے سے کہی بھی جاسکتی ہیں- شاید اس کیلئے کوشش بھی ہو رہی ہے، یقیناً۔ لیکں یہ بات اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اصل خطرہ کیا ہے- ہمیں قوم کی روح کو رجعت پرست عناصر سے واپس حاصل کرنا ہے-

انگلش میں پڑھیں

ترجمہ: علی مظفر جعفری

ہاجرہ ممتاز
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024