صوابدیدی خفیہ فنڈز
ڈاکٹر عبدالمالک نے وزیرِ اعلیٰ بلوچستان کا منصب سنبھالتے ہی فوری طور پر وزیرِ اعلیٰ کے صوابدیدی اختیارات کے لیے قائم خفیہ فنڈز کو ختم کردیا ہے۔
انہیں ابھی بہت سی اور خفیہ چیزوں سے بھی نمٹنا پڑسکتا ہے، جن میں سے بعض کا ذکر وہ اپنی افتتاحی تقریرمیں بھی کرچکے تھے۔
انہیں خواہ کسی بھی طرح کے خفیہ معاملات کا سامنا کرنا پڑے لیکن جس طرح انہوں نے نہایت سختی سے شفافیت کی حمایت کی تھی، وہ انہیں پٹڑی سے نہیں اترنے دیں گے۔
اسی طرح ملک کے بعض دیگر علاقوں سے بھی ایسی آوازیں سننے کو ملی تھیں کہ حکومت عوام کا پیسہ خفیہ فنڈز میں استعمال نہیں کررہی ہے۔
اسلام آباد میں پاکستان مسلم لیگ ۔ نون کی حکومت وفاقی وزارتِ اطلاعات و نشریات کو برقرار رکھتے ہوئے، اس کے اخراجات میں بڑے پیمانے پر کٹوتی کی طرف دیکھ رہی ہے لیکن ان کا یہ عزم کہیں بے توقیر نہ ہوجائے کیونکہ یہ وزارت آڈٹ کا خوف کیے بنا خفیہ فنڈز کی تقسیم کے لیے مشہور رہی ہے۔
حتیٰ کہ میڈیا کی بعض پُرجوش اطلاعات کہنے میں یہاں تک آگے جاچکیں کہ وفاقی حکومت وزیرِاعظم کا پرانا 'صوابدیدی فنڈز' ختم کرنے پر بھی غور کررہی ہے۔
موجودہ منظر نامہ کے تناظر میں قانون ساز اراکین اسمبلی کو اُن کے حلقوں میں ترقیاتی کاموں کے لیے وزیرِاعظم کی ہدایت پر فنڈز جاری کیے جاتے ہیں تاہم اطلاعات کا کہنا ہے کہ حکومت، پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کو رقوم کی تقسیم کا معاملہ شفاف بنانے پر غور کررہی ہے۔
یہاں ایک فرق کرنا ہوگا۔ کیا یہ طریقہ کار کی تبدیلی ہے یا ایک تجویز جو بنیای اصولوں پر نافذ کر کے نئی پالیسی تشکیل دے گی؟
یہ ہماری ملکی تاریخ رہی ہے کہ امتیازی سلوک سے پسندیدہ لوگوں کو جنم دیا جاتا ہے۔ صوابدیدی اختیارات صرف ملک کے نہایت اعلیٰ ترین حکومتی منصبوں پر براجمان شخصیات تک ہی محدود نہیں، یہ ایسے نظام کی مثال ہے جس کی نچلی سطح پر بھی خوشی خوشی پیروی ہوتی ہے۔
آڈٹ سے ماورا صوابدیدی فنڈز کا اختیار کبھی نقدی، کبھی پلاٹ کی صورت، اپنے چہیتوں کو نوازنے کے لیے ہوتا ہے۔ اور یہ اختیار سرکاری عملدار ہی استعمال کرسکتے ہیں۔
صوابدیدی اختیارات کا استعمال انفرادی سطح پر بھی ہوتا ہے جیسے ٹیکس حکام کا کہنا ہے کہ ایک افسر ٹیکس کی شرح اور عائد کردہ جرمانے کی شرح متعین کرنے کے اختیارات کا حامل ہے۔
اگر نظام کو شفاف اور صاف ستھرا بنانا ہے تو صوابدیدی اختیارات کا سلسلہ ختم کرنا پڑے گا۔ جہاں بھی عوام کا پیسہ استعمال ہو، اُس کا باقاعدہ آڈٹ اور عوامی نگرانی یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔