' امن مذاکرات: فوج کو ہی ڈرائیونگ سیٹ پر ہونا چاہیے'
اسلام آباد: پاکستانی طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے تشکیل دی جانے والی پہلی حکومتی ٹیم کے ایک رکن نے کہا ہے کہ امن مذاکرات میں فوج اصل سٹیک ہولڈر ہے اور بہتر نتائج کے لیے انہیں کو فیصلے کرنا ہوں گے۔
جمعہ کو بی بی سی اردو سے خصوصی انٹرویو میں میجر (ر) عامر نے کہا کہ امن مذاکرات میں فوج کو ہی ڈرائیونگ سیٹ پر ہونا چاہیے کیونکہ وہ شدت پسندی نے ناصرف لڑ رہی ہے بلکہ متاثر بھی ہے۔
انہوں نے کہا کہ نئی حکومتی کمیٹی بننے کے بعد پرانی ٹیم کو ختم ہی ہونا تھا کیونکہ میڈیا کی مسلسل توجہ حاصل کرنے والے ارکان کیلئے مزید کام جاری رکھنا مشکل ہو گیا تھا۔
کالعدم پاکستان تحریک طالبان کے ساتھ مذاکرات کے پہلے دور میں اہم کردار ادا کرنے والے عامر خود میڈیا سے دور ہی رہے۔
اطلاعات کے مطابق، عامر ماضی میں ٹی ٹی پی کے سابق سربراہ حکیم اللہ محسود کے ساتھ خفیہ مذاکرات میں شامل رہے تھے اور اسی وجہ سے وہ حالیہ وزیر اعظم نواز شریف کے قریبی معتمد ہیں۔
'آپ جو بھی کہیں۔۔۔ لیکن میں نے وزیر اعظم کو بتا دیا ہے کہ اس معاملے میں اب بھی اصل بات فوج کی ہے'۔
سینیئر سیاست دان مولانا فضل الرحمان کی جانب سے پہلی مذاکراتی ٹیم پر شدید تنقید سے نالاں عامر نے برطانوی نشریاتی ادارے سے گفتگو میں مزید کہا کہ نئی حکومتی ٹیم نے میڈیا سے دور رہنے کا درست فیصلہ کیا ہے۔
جب نے سے پوچھا گیا کہ ریاست کی جانب سے امن مذاکرات کی حالیہ کوششیں ماضی سے کس طرح مختلف ہیں تو انہوں نے کہا ' ماضی میں شخصیات سے معاہدے کیے گئے لیکن اس مرتبہ معاہدہ ایک تنظیم سے طے پائے گا'۔
'دوسرا یہ کہ جنگ بندی کا اعلان غیر مثالی ہے۔۔۔ اسی لیے میں حالیہ کوششوں کو زیادہ اہم ٹھراؤں گا'۔
امن مذاکرات کے مخالفین کے حوالے سے ان کا کہنا تھا 'ایک جانب احرارالہند اور انصار الہند ہیں تو دوسری جانب وزیر داخلہ چوہدی نثار علی خان کو چھوڑ کر دوسرے پارلیمانی کمیٹی کے ارکان، جو مذاکرات کے حامی نہیں'۔
میجر (ر) عامر نے بتایا کہ حکومت طالبان کی جانب سے غیر جنگجوؤں کو رہا کرنے کے مطالبے پر سنجیدگی سے غور کر رہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ حکومت نے طالبان سے شہباز تاثیر اور ڈاکٹر اجمل گیلانی کی رہائی کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
تبصرے (1) بند ہیں