ٹیکس کا جامد نظام
یکے بعد دیگرے تمام سابقہ حکومتوں کو اس مسئلہ کا سامنا رہا ہے کہ ٹیکسوں سے ہونے والی آمدنی یا تو ایک جگہ رکی رہی یا اس میں کمی ہوئی- فیڈرل بورڈ آف ریوینیو، ٹیکس پالیسی اور ٹیکس انتظامیہ میں بہت سی اصلاحات کی گئیں لیکن اس کے باوجود نتائج انتہائی مایوس کن رہے-
ٹیکس کے اس بے لگام نظام کی وجوہات کا تجزیہ کرنے کے لیے ہمیں ایک باضابطہ طریق کار اختیار کرنا ہوگا- اس کے لیے ہمیں معیشت کو مختلف شعبوں میں تقسیم کرنا ہوگا: دیہی اور شہری معیشت، باضابطہ، روایتی اور غیر قانونی معیشت، زراعت، صنعت اور خدمات؛ اور آمدنی پر مبنی گروپس-
پاکستان میں ممکنہ طور پر کام کرنے والوں کی تعداد 75 ملین ہے، 18 ملین کام نہیں کرتے، 5 ملین بیروزگار ہیں اور 52 ملین کام کرتے ہیں- دیہی محنت کش طبقہ مجموعی تعداد کا تقریباً 70 فی صد ہے- ان میں سے 12.5 ایکڑ کی سیراب شدہ زمینوں اور 25 ایکڑ کی غیر سیراب شدہ زمینوں کوچھوڑ کر جن سے آمدنی حاصل ہوتی ہے زیادہ تر تعداد بے زمین کسانوں کی ہے، خاندان کے لوگ ہیں جو اجرت کے بغیر کام کرتے ہیں، وقتاً فوقتاً کام کرنے والے لوگ ہیں، کسان ہیں جنھیں اتنی ہی اجرت ملتی ہے جو انھیں بس زندہ رکھتی ہے اور چھوٹے چھوٹے خوانچہ فروش ہیں- ان میں سے بہت سوں پر براہ رست ٹیکس لاگو نہیں ہوتا اور یہ لوگ وہی ٹیکس دیتے ہیں جو پیداوار میں استعمال ہونے والے مال پر یا ذاتی استعمال کی اشیاء پر لگتا ہے- ٹیکس کا اصل بوجھ شہری آمدنیوں پر پڑتا ہے جو تیس فی صد محنت کرنے والا طبقہ کماتا ہے-
باضابطہ، روایتی اور غیر قانونی معیشت کے بارے میں ثبوت اور اعداد و شمار اکٹھا کرنا مشکل ہے- غیر مصدقہ اور سنی سنائی باتوں کے مطابق اس بات کے اشارے ملتے ہیں کہ روایتی شعبہ بتدریج پھیل رہا ہے اور اس کی وجہ وہ آمدنی ہے جو بیرون ملک کام کرنے والے لوگ بھیجتے ہیں، املاک سے حاصل ہونے والی آمدنی ہے جو کم کر کے دکھائی جاتی ہے، غیر رجسٹر شدہ اداروں کی بڑھتی ہوئی تعداد ہے جو رہائشی علاقوں سے ہٹ کر قائم کئے جارہے ہیں مثلاً، بوتیک، ٹیوشن سنٹرز، اسکول، کلینکس، بیوٹی سیلونس، ریسٹورنٹس اور چھوٹے اور اوسط درجے کے ادارے- ان سب کی مشترکہ خصوصیت یہ ہے کہ یہ ٹیکس کے دائرہ سے باہر ہیں-
گزشتہ پانچ چھ برسوں میں سرکاری عہدوں پر فائز افراد کی بدعنوانی اور رشوت خوری، بھتہ، ڈکیتی، تاوان، زمینوں پر غیر قانونی قبضوں، پانی اور دیگر مافیا، جسم فروشی، قمار بازی کے اڈوں اور دیگر اقسام کی غیر قانونی اور مجرمانہ سرگرمیوں سے حاصل ہونے والی آمدنیوں میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے- لیکن باضابطہ معیشت یا تو ایک جگہ رکی رہی یا پھر اس میں کمی ہوئی- یہی وجہ ہے کہ شہری علاقوں میں بھی ٹیکس کا دائرہ سکڑ رہا ہے کیونکہ سرمایہ باضابطہ معیشت سے نکل کر روایتی/غیر قانونی معیشت میں منتقل ہورہا ہے- بہترین اندازوں کے مطابق باضابطہ شعبہ میں روزگار کا تناسب مجموعی شہری روزگار کے 25 فی صد حصہ سے زیادہ نہیں ہے-
اگر ان افراد کی تعداد کا تعین کیا جاسکے جن کی آمدنی پر ٹیکس لگ سکتا ہے----ان کے گوشوارے صحیح طور پر تیار کئے جائیں، ان کا آڈٹ کیا جائےاور ان پر عمل درآمد کیا جائے -----ان کی تعداد تقریباً 4 ملین تک ہوسکتی ہے- اس وقت صرف 1.5 ملین افراد اور فرم ٹیکس ریٹرنس جمع کراتی ہیں- تنخواہ یافتہ افراد کے علاوہ ٹیکس ریٹرنس جمع کرانے والوں کی بڑی تعداد اپنی پوری آمدنی ظاہر نہیں کرتی-
جی ڈی پی کا 1.1 فی صد سے بھی کم حقیقی ڈائرکٹ انکم ٹیکس کی مد میں جمع ہوتا ہے- اسی لئے مزید آمدنی اس اوپر کے 20 فیصد حصے سے ہوگی جو قومی آمدنی کا 50 فیصد حصہ لے جاتے ہیں- سیلز ٹیکس کے سسٹم میں تقریباً 118000 فرمز رجسٹرڈ ہیں لیکن ان میں سے صرف 15000 ٹیکس دیتے ہیں-مجموعی سیلز ٹیکس اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کا 82 فیصد صرف 100 کمپنیوں سے حاصل ہوتا ہے-
ان حالات میں صاف ظاہر ہے کہ روایتی طریقوں کا استعمال، مثلاً، شرح کی تبدیلی، گوشوارے، عمل درآمد اور آڈٹ وغیرہ اس وقت تک بے فائدہ ہیں جب تک کہ باضابطہ شعبہ کی آمدنی میں اضافہ نہ ہواور اس شعبہ سے استثناء مراعات، اور چھوٹ ختم نہ کردیئے جائیں اور نئے ٹیکس دہندے شامل نہ کئے جائیں-
تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ صنعتیں ٹیکس کا دو تہائی سے زیادہ بوجھ برداشت کرتی ہیں---جبکہ خدمات کا شعبہ 21 فیصد اور زراعت کا شعبہ 3 فیصد ٹیکس دیتا ہے- تقریباً 90 فیصد زرعی خاندانوں کے کھیت بس اتنے بڑے ہیں کہ ان سے ان خاندانوں کی گزر بسر ہوجاتی ہے- باقی بچے ہوئے 50 ایکڑ کے کھیتوں میں سے صرف ایک تہائی ٹیکس کے دائرہ میں آتے ہیں- اس بات کی امید کرنا کہ زرعی شعبہ(جی ڈی پی کا 20 فیصد)ٹیکس کی آمدنی میں متناسب حصہ ادا کرے گا غیر حقیقی ہے- زرعی شعبہ سے حاصل ہونے والی آمدنی موجودہ ٹیکسوں کی آمدنی کے 1 فی صد یا 2 فی صد سے زیادہ نہیں ہوسکتی- لیکن اگر زرعی شعبہ سے متعلق افراد ٹیکس ریٹرنس جمع کروائیں تو غیر- زرعی شعبہ سے خارج ہونے والی آمدنی رک جائیگی-
خدمات کے شعبہ میں ٹرانسپورٹ اور تجارت کا شعبہ مجموعی طور پر جی ڈی پی کا ایک تہائی حصہ ادا کرتے ہیں- زیادہ تر ٹرانسپورٹ کی نقل و حرکت سڑکوں پر ہوتی ہے اور چند کمپنیوں کو چھوڑ کرزیادہ تر ٹرانسپورٹرز چھوٹے یا اوسط درجے کے ہیں- صرف فضائی اور شپنگ کے شعبے زیادہ ٹیکس دیتے ہیں- اسی طرح، 1.5 ہول سیل اور ریٹیل کاروبار میں سے(جس میں 9 ملین افراد کام کرتے ہیں) 85 فی صد کاروبار چھوٹے پیمانے کے خاندانی اسٹورز پر مشتمل ہے- تجارت کے ذیلی شعبہ سے ڈائرکٹ اور سیلز ٹیکس کے مد میں حاصل ہونے والی آمدنی فیڈرل ٹیکسز کا صرف 0.5 فی صد ہے- خدمات کے شعبہ کا دائرہ بھی محدود ہے-
مجموعی ٹیکسوں میں سے دو تہائی ٹیکس ان ڈائرکٹ ٹیکسوں کی مد میں جمع ہوتا ہے اور جملہ آمدنی کا ایک چوتھائی حصہ مختلف مرحلوں پر پٹرولیم اور اس کی مصنوعات سے حاصل ہوتا ہے(جسے صارفین پر منتقل کردیا جاتا ہے) جو ریگریسیو ٹیکس ہے- ڈائرکٹ ٹیکسوں میں سے بھی دو تہائی ٹیکس ودہولڈنگ تیکسوں کی مد میں جمع ہوتے ہیں جنھیں مکمل اور حتمی ٹیکس سمجھا جاتا ہے- چنانچہ، مختلف آمدنی والے گروپوں پراس کے اثرات کے لحاظ سے اس کا بوجھ غریب اور اوسط درجے کے آمدنی والے طبقہ پرپر زیادہ ہوتا ہے-
نہ صرف یہی، بلکہ پالیسی ساز زیدہ اہداف حاصل کرنے کے لئے انھیں لوگوں پر مزید ٹیکس لگاتے ہیں جن پر پہلے ہی سے اس کا زیادہ بوجھ ہے- اس کے نتیجے میں لوگ ٹیکس کے پیچیدہ نظام میں ---جس میں بہت سے امتیازی قوانین کی بھرمار ہے---ٹیکس سے بچنے کے طریقے تلاش کرتے ہیں- مثلاً آمدنی کم کر کے دکھانا، چھوٹ حاصل کرنا اور پورا ٹیکس ادا نہ کرنا-
مذکورہ بالا تجزیہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹیکسوں کے نظام کا جھکاؤشہری، صنعت اورباضابطہ شعبہ کے گرد تنگ،غیر مساوی اور اور مسخ شدہ نوعیت کا ہے-جب تک کہ معیشت کے ڈھانچہ میں تبدیلی نہیں کی جاتی- یعنی، باضابطہ شعبہ کا دائرہ وسیع کیا جائے، دیہی اور زرعی شعبہ کو موثر بنایا جائے، اوسط آمدنی والے طبقہ میں اضافہ ہو، ٹیکسوں کو زیادہ پروگریسیو بنایا جائے اور مراعات دینے کا سلسلہ کم کیا جاَئے---ٹیکسوں کے نظام میں اصلاح کی کوششوں سے امید افزا نتائج حاصل نہیں ہوسکتے-
ترجمہ: سیدہ صالحہ