ہنگامہ ہے کیوں برپا؟؟
ارے بھئی کس بات کا اتنا شور مچا رکھا ہے!؟ کس بات کا اتنا واویلا کر رہے ہیں آپ لوگ؟ پچھلے ایک ہفتے سے آپ لوگوں نے آسمان سر پہ اٹھا رکھا ہے!
کیا آپ نہیں جانتے کہ کس معاشرے میں رہتے ہیں آپ لوگ؟
وہ معاشرہ جو ایک حجاب نہ لینے والی عورت کو فاحشہ اور بدکردار گردانتا ہو اور اسے قابل دست درازی سمجھتا ہو، ایک ایسا معاشرہ جہاں ایک ملازمت پیشہ عورت کو بری ماں اور بری عورت قرار دیا جاتا ہو، جہاں ایک لڑکی کو صرف لڑکے والوں کی پسندیدگی حاصل کرنے کے لئے اعلیٰ تعلیم دلائی جاتی ہو، جہاں ایک عورت کو اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی پر چار 'گواہ' پیش کرنا لازم ہوں اور اس کے علاوہ کوئی بھی ثبوت ثانوی حیثیت تک نہ رکھتا ہو، وہاں اگر اسلامی نظریاتی کونسل نے دوسری شادی کے لئے پہلی بیوی کی اجازت کو غیراسلامی قرار دے دیا ہے تو کونسی قیامت ٹوٹ پڑی؟
آپ لوگ تو ایسے بھڑک رہے ہیں جیسے آج سے پہلے پاکستانی مرد، اپنی بیویوں کی باقاعدہ اجازت سے دوسری، تیسری، چوتھی شادی رچاتے رہے ہیں، اور اگر بیوی/بیویوں نے انکار کر دیا تو یہ مرد مومن صبر کر کے بیٹھ جاتے ہونگے-
اول تو اکثریت عورتوں کو اس قانون کا علم ہی نہیں اور جن کے علم میں ہے ان کے لئے بس دو عدد جھانپڑ کی دیر ہوتی ہے پھر سب رائٹ لفٹ، سینٹر میں آجاتا ہے-
کیا آپ کو یہ علم نہیں کہ مسلمان جیسی عظیم مخلوق کو سنبھالنے کے لئے ایک عورت سے کام نہیں چلتا، کم از کم چار تو ہونی ہی چاہییں اور وہ بھی ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کی شکل میں نہیں، صرف اور صرف بیوی کی شکل میں-
اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ وہ اپنی تمام بیویوں کے ساتھ برابری کا سلوک کرتا ہے یا نہیں، اتنی سی بات پر آپ لوگوں نے رائی کا پہاڑ بنا رکھا ہے!!
ایک تو ان مردوں کی سمجھ نہیں آتی بلا وجہ اسلامی نظریاتی کونسل کی بات پر اتنا چراغ پا ہو رہے ہیں. بھائی وہ یہ سب آپ ہی لوگوں کی آسانی کے لئے تو کر رہے ہیں! اس طرح آپ کو کسی کے سامنے جوابدہ نہیں ہونا، کوئی قانون آپ کے خاندانی تانے بانے کی تباہی پر آپ سے باز پرس نہیں کرے گا- کوئی عورت اپنے ساتھ ہونے والی بیوفائی اور اپنے بچوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کی دہائی نہیں دے گی-
دیکھئے، یہ سب shelved laws ہیں، ان کا اطلاق پاکستان کے کسی بھی حصّے میں نہیں ہوتا، یہ تو اسلامی نظریاتی کونسل کی مہربانی ہے کہ انہوں نے انسانی حقوق کے اس فریب کو سرے سے ختم کرنے کی سفارش کی ہے-
یہ جو انسانی حقوق کا پرچار آپ لوگ کرتے پھرتے ہیں نا یہ سب ایک مہذب آئیڈیل معاشرے کی خاصیتیں ہیں، جہاں کے ہر فرد کو اپنی زندگی گزارنے اور آگے بڑھنے کے یکساں مواقع دیے جاتے ہیں-
ایک ایسا معاشرہ جہاں کے لوگوں کو اس بات کی تعلیم دی جاتی ہو کہ ملک کی آدھی آبادی کا بھی اس ملک کی ترقی میں اتنا ہی کردار ہے جتنا آپ کا، انہیں بھی اتنا ہی space چاہیے جتنا آپ کو، وہ بھی اتنے ہی احترام کی حقدار ہیں جتنے کہ آپ-
ایسا کوئی معاشرہ اب تک وجود میں تو نہیں آیا البتہ بہت سی تعلیم یافتہ قومیں ایسے معاشرے کی تشکیل کے لئے سرگرم ہیں-
یہ سمجھ لیجیے کہ پاکستان a .k .a الباکستان میں یہ سب قطعی الاؤڈ نہیں! یہاں عورتوں کو فقط جسمانی اور نظری تسکین کا سامان سمجھا جاتا ہے، اس کا کام بس بچے پیدا کرنا اور روٹیاں پکانا ہے. ایسی کوئی بھی عورت جو معاشرے میں اپنا مقام منوانا چاہتی ہے اس پر فوراً اخلاق باختہ ہونے کا لیبل لگا دیا جاتا ہے-
نابالغ بچوں کے نکاح پر تو آپ لوگوں نے ایسا شور مچا رکھا ہے جیسے یہاں ایسی کوئی practice ہوتی ہی نہیں ہے، 'ونی' اور اس جیسی دوسری خرافات تو پاکستان کے بعض علاقوں میں عام ہیں، اسلامی نظریاتی کونسل تو فقط اسے قانونی حیثیت دے رہی ہے تاکہ یہ جو سماج کی ٹھیکیدار، انسانی حقوق کی تنظیمیں ان چھوٹی چھوٹی باتوں پر آسمان سر پر اٹھا لیتیں ہیں ان کے منہہ بند ہوجائیں-
ویسے تو ایک ریاست کی آدھی آبادی کو زندگی گزارنے اور آگے بڑھنے کے لئے انسان کے دیے گۓ حقوق کی ضرورت نہیں-
جی ہاں! بالکل ٹھیک پڑھا آپ نے، حقوق کی ضرورت نہیں ہے!
یہ انکا birthright ہے- انکی حیثیت ملک کی دوسری آدھی آبادی کے مساوی ہے- لیکن چونکہ یہ پاکستان ہے یہاں حقوق کے نام پر جو خیرات عورتوں کو دی جاتی ہے اسے غنیمت جانئے- ویسے بھی آپ کے بین الاقوامی شہرت یافتہ کرکٹ اسٹار تو یہ اشارہ دے ہی چکے ہیں کہ عورت کا اصل مقام 'باورچی خانہ' ہے-
چناچہ عورتوں کو اس سے آگے سوچنے کی ضرورت نہیں اور ان کے حمایتی مرد حضرات کو کچھ کہنے کی ضرورت نہیں- یہ شور شرابہ بند کیجیے، خواتین کے عالمی دن کو گزرے ایک ہفتہ ہوچکا ہے-














لائیو ٹی وی
تبصرے (11) بند ہیں