چوہدری نثار اور شریف برادارن میں دوریاں؟
اسلام آباد: وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان گزشتہ سال عام انتخابات کے بعد سے حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ - نواز میں بظاہر اپنا اثر و رسوخ کھوتے جا رہے ہیں۔
حال ہی میں قومی اسمبلی میں اپنی تقریر کی وجہ سے وہ ایک مرتبہ پھر مشکلات کا شکار ہیں۔
پیر کو اسلام آباد میں دہشت گردی سے متعلق چوہدری نثار کے ایک بیان پر وکلاء نے اگلے ہفتے سے بھر پور تحریک چلانے کی دھمکی دے رکھی ہے اور ایسے میں ن لیگ کو خدشہ ہے کہ حکومت مشکل میں پڑ سکتی ہے۔
حکمران پارٹی کے کچھ رہنماؤں اور قانون سازوں کا کہنا ہے کہ اگر وزیر داخلہ نے نقصان کو کنٹرول کرنے کے لیے فوری اقدامات نہ اٹھائے تو حکومت اور وکلاء برادری کے درمیان براہ راست محاذ آرائی کی صورت پیدا ہو جائے گی۔
اسلام آباد حملے میں ملوث دہشت گردوں کی تعداد اور ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج رفاقت اعوان کے اپنے ہی محافظ کے ہاتھوں ہلاک ہونے کے دعوؤں پر وکلاء چوہدری نثار سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
پاکستان بار کونسل (پی بی سی) کے وائس چیئرمین چوہدری رمضان نے وزیر داخلہ پر الزام لگایا کہ وہ جان بوجھ کر سیکورٹی میں ناکامی چھپانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔
رمضان کے مطابق، چوہدری نثار حملے کے چشم دید گواہوں اور دہشت گردوں کی فائرنگ سے زخمی ہونے والے وکلاء کے بیانِ حلفیوں کو رد کر کے ملزموں کو 'تحفظ' فراہم کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اسلام آباد کو محفوظ شہر قرار دیے جانے کے کھوکلے دعوے بے نقاب ہونے پر وزیر داخلہ پریشان ہیں۔
خود حکمران جماعت کے رہنما تحقیقات کے دوران چوہدری نثار کے بیان کو 'غیر ضروری' قرار دے رہے ہیں۔
ان کا خیال ہے کہ پولیس اور خفیہ اداروں کے افسروں سے یہ معلوم ہو جانے پر بھی چوہدری نثار کو ایسا بیان نہیں دینا چاہیے تھا۔
ن لیگ کے ایک سینیئر قانون ساز نے چوہدری نثار کا موازنہ سابق وزیر داخلہ رحمان ملک سے کرتے ہوئے کہا 'مجھے ان دونوں کے درمیان کوئی فرق نظر نہیں آتا'۔
پی ایم ایل- نواز کے ایک اور رہنما کا کہنا تھا کہ ایک حساس معاملے پر وزیر داخلہ کو اتنی لمبی تقریر کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔
'پالیسی بیان ہمیشہ مختصر رکھا جاتا ہے اور انہیں اس طرح کھلے عام تقریروں میں پیش نہیں کیا جاتا'۔
حکمران جماعت میں ذرائع نے دعوی کیا کہ عام انتخابات میں اپنے آبائی حلقے سے قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستیں ہار جانے کے بعد چوہدری نثار شریف برادران کی قربت کھو چکے ہیں۔
ذرائع نے مزید بتایا کہ پارٹی میں ایک نثار مخالف گروپ الیشکن کے بعد سے متحرک ہے اور وہ اپنی کوششوں سے کم از کم ان کے اور شریف برادران کے درمیان خلیج پیدا کرنے میں کامیاب رہا۔
ذرائع کے مطابق، وفاقی کابینہ میں اہم پوزیشنز پر موجود حکمران پارٹی کے دو سینیئر رہنما چوہدری نثار سے بات چیت بھی نہیں کرتے۔
اس کے علاوہ، پارٹی کے کئی رہنما 'رسائی' نہ ہونے اور مسائل کے حل میں مدد نہ ملنے پر وزیر داخلہ سے ناخوش ہیں۔
چوہدری نثار خود کئی موقعوں پر تسلیم کر چکے ہیں کہ بلیو پاسپورٹس کی منسوخی،سیکورٹی اور سرکاری پروٹوکول واپس لیے جانے جیسے بعض اقدامات کی وجہ سے ان کے کچھ ساتھی رہنما خوش نہیں۔
ادھر، اپوزیشن کے احتجاج پر وزیر داخلہ کئی مہینوں سے سینیٹ اجلاسوں میں بھی شریک نہیں ہوئے۔
ان پر سینیٹ میں دہشت گردی اور ڈرون حملوں سے متعلق سوالات کے جواب میں مبینہ طور پرغلط معلومات فراہم کرنے کا الزام ہے۔
چوہدری نثار نے اپوزیشن کے مطالبے پر غلط معلومات کو واپس لینے سے انکار کر رکھا ہے جس کے بعد وزیر اعظم نواز شریف نے سینیٹ میں وزارت داخلہ سے متلعق سوالات کا جوابات دینے کے لیے وزیر مملکت برائے تعلیم بلیغ الرحمان کو اضافی ذمہ داری دی ہوئی ہے۔
رپورٹر کی جانب سے متعدد بار رابطہ کرنے کے باوجود چوہدری نثار سے بات نہ ہو سکی۔
تبصرے (2) بند ہیں