• KHI: Zuhr 12:36pm Asr 5:03pm
  • LHR: Zuhr 12:07pm Asr 4:34pm
  • ISB: Zuhr 12:12pm Asr 4:40pm
  • KHI: Zuhr 12:36pm Asr 5:03pm
  • LHR: Zuhr 12:07pm Asr 4:34pm
  • ISB: Zuhr 12:12pm Asr 4:40pm

مذاکرات کا جھنجھنا

شائع March 9, 2014
کیا ان حالات کی پچاس فیصد ذمہ داری ان جماعتوں اور جمہوری نمائندوں پر عائد نہیں ہوتی جو مسلسل کسی نہ کسی شکل میں طالبان کی حیثیت legitimize کرنے میں مصروف ہیں؟ انہیں بار بار مظلوم، استحصال کا شکار بتایا گیا، عوام کو غلط تاثر دیا گیا، انہیں گمراہ کیا گیا- عوام کے یہی نمائندے، دہشتگردوں کو شہید قرار دیے جانے پر مصر تھے-
کیا ان حالات کی پچاس فیصد ذمہ داری ان جماعتوں اور جمہوری نمائندوں پر عائد نہیں ہوتی جو مسلسل کسی نہ کسی شکل میں طالبان کی حیثیت legitimize کرنے میں مصروف ہیں؟ انہیں بار بار مظلوم، استحصال کا شکار بتایا گیا، عوام کو غلط تاثر دیا گیا، انہیں گمراہ کیا گیا- عوام کے یہی نمائندے، دہشتگردوں کو شہید قرار دیے جانے پر مصر تھے-

چلو جی چھٹی ہوئی، 'مذاق رات' کا نیا دور شروع ہونے کو ہے، لیکن اس بار بساط پر میاں صاحب صرف اپنے پیادے ہی نہیں کھڑے کر رہے بلکہ فرنٹ لائن پر knights بھی موجود ہیں- اس بار حکومت مذاکرات کی راہ میں حائل تمام خدشات ختم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے-

ہمارے وزیر داخلہ چودھری نثار صاحب تو پہلے ہی تحریک طالبان پاکستان کو سمدھی بنا بیٹھے ہیں، اسی لئے ان کی ہر جا و بیجا بات ماننے پر مجبور ہیں- کبھی کرکٹ کھیلنے کی دعوت دی جا رہی ہے، کبھی طالبان کو اچھے بچے بنا کر پیش کیا جا رہا ہے، تو کبھی 'تیسری قوّت' کی شناخت کے لئے 'مدد' کی التجا کر رہے ہیں!

کپتان صاحب نے تو فقط ٹی ٹی پی کو گمراہ، ناسمجھ بچے سے تشبیہہ دی تھی، ہمارے وزیر داخلہ نے تو ان سے بھی دو قدم آگے چھلانگ لگا کر طالبان کو محب وطن قرار دے ڈالا ہے!

قبلہ کے مطابق طالبان کی لڑائی حکومت سے ہے پاکستان کے تو وہ خیرخواہ ہیں (شاید انکا پاکستان پنجاب سے شروع ہو کر وہیں ختم ہوجاتا ہے)- اگر ایسا ہے تو یقیناً مرنے والے وہ ہزاروں پاکستانی اپنے اپنے گھروں میں گیس سلنڈر پھٹنے سے مرے ہوں گے یا شاید سب نے اجتماعی خودکشی کر لی ہوگی-

کمال ہے صاحب، اگر حکومت سے لڑائی ہے تو انہی کو نشانہ بنائیں بیچاری معصوم عوام کا کیا قصور ہے، وہ تو پہلے ہی اپنے نااہل حکمرانوں کے ہاتھوں پریشان ہے- انہی سے ابتدا کریں نا، خس کم جہاں پاک-

عوام یہ سمجھ لے کہ آیندہ دو سال تک یہ مذاق رات کا تماشا یوں ہی چلتا رہنے والا ہے اور ساتھ ہی ساتھ خوف و دہشت کا رقص بھی یوں ہی جاری رہے گا-

کبھی ایک پارٹی کسی بات پر نئی نویلی دلہن کی طرح روٹھ کر میکے جا بیٹھے گی تو کبھی دوسری- کچھ دن شکوے شکایات چلیں گے، 'بڑے بزرگ' بیچ میں لاۓ جائیں گے، پھر دونوں love birds مذاق رات کی میز پر آ بیٹھیں گے- روٹھنے منانے کا عمل یوں ہی چلتا رہے گا اور کسی soap opera کی طرح یہ سلسلہ سو دو سو episode پوری کرے گا یہاں تک کہ اگلے الیکشن آجائیں گے-

فوج کی مداخلت کا جو خطرہ تھا اس کا بھی علاج کر لیا گیا ہے، اس بار کمیٹی میں انہیں بھی ایک stakeholder کی حیثیت دے دی گئی ہے- اس سے حکومت نے ایک تیر سےکئی شکار کیے ہیں- ایک تو فوج کو مذاق رات میں stakeholder بنا کر اسے پابند کر دیا ہے کہ وہ مذاکرات کی ethics کی رو سے مقابل stakeholder کے خلاف کسی قسم کی کارروائی سے گریز کریں چناچہ اب کسی قسم کے آپریشن کی گنجائش نہیں حتیٰ کے سرجیکل آپریشن تک کی نہیں-

دوسرے، وہ جماعتیں اور سیاستدان جو بار بار فوج کو مداخلت کے لئے 'اکسا' رہے تھے انکو یہ پیغام پنہچا دیا گیا ہے کہ اتنا شور و غوغا مچانے کی ضرورت نہیں، سویلین حکومت کو فوج پر پورا کنٹرول ہے وہ جہاں چاہے نکیل پکڑ کر اسے گھما سکتی ہے-

تیسرے، یہ بھی ثابت کر دیا گیا ہے کہ فوج، حکومت کے اسٹریٹجک گیم پلان میں اس کے ساتھ ہے اور حکومت کو فوج کی مکمل حمایت حاصل ہے-

یہ تمام صورت حال اپنی جگہ، لیکن کیا ملک میں امن و امان کی موجودہ حالت کی سو فیصدی ذمہ داری حکومت پر ڈالنا درست ہے؟

کیا ان حالات کی پچاس فیصد ذمہ داری ان جماعتوں اور جمہوری نمائندوں پر عائد نہیں ہوتی جو مسلسل کسی نہ کسی شکل میں طالبان کی حیثیت legitimize کرنے میں مصروف ہیں؟ انہیں بار بار مظلوم، استحصال کا شکار بتایا گیا، عوام کو غلط تاثر دیا گیا، انہیں گمراہ کیا گیا- عوام کے یہی نمائندے، دہشتگردوں کو شہید قرار دیے جانے پر مصر تھے-

آج جو جمہوری نمائندے دہشتگردوں کے خلاف آپریشن آپریشن چلّا رہے ہیں یہ وہی جماعتیں ہیں جنہوں نے دو ہزار تیرہ کی آل پارٹیز کانفرنس میں منظور ہونے والی قرارداد پر دستخط کیے اور ٹی ٹی پی کو بطور stakeholder تسلیم کیا-

آج ان جماعتوں اور ان کے لیڈروں نے یو ٹرن لے لیا اور جب ان سے اے پی سی کے حوالے سے سوال کیا جاتا ہے تو ان کے پاس ایک ہی جواب ہے کہ ہم دباؤ میں تھے- اپنی بقاء سے زیادہ دباؤ اور کس بات کا ہو سکتا ہے- تو یعنی ان جماعتوں کی بقاء، پاکستانی عوام کے لہو سے زیادہ ضروری تھی-

پچھلے دنوں جتنا شوروغل پارلیمنٹ لاؤنج سے شراب کی خالی بوتلیں برامد ہونے پر مچایا گیا، ویڈیو فوٹیج دکھائی گئی- اگر یہ عوامی نمائندے اسی طرح عوام کے قاتلوں کی مذمت کرتے تو آج حالات یقیناً مختلف ہوتے-

جب ملک کی سالمیت اور عوام کے تحفظ کی بات آتی ہے تو کوئی دائیں اور بائیں نہیں ہوتا، کوئی لبرل اور قدامت پسند نہیں ہوتا- کوئی بھی cause چاہے جتنا بھی مقدس کیوں نہ ہو انسانی جان کے زیاں کی اجازت نہیں دے سکتا-

ان حالات میں عوامی نمائندوں کو رائٹ اور لیفٹ کا چکر چھوڑ کر سینٹر میں آجانا چاہیے تھا اور متحد ہوکر پاکستان کو ظالمان کے شکنجے سے آزاد کرانا چاہیے تھا لیکن ایسا نہ کیا گیا بلکہ دائیں اور بائیں کا شور مچا کر عوام کو تقسیم کر دیا گیا ہے تاکہ لوگ اپنے ساتھ ہونے والے مظالم پر آواز اٹھانے کی بجاۓ آپس میں لڑتے رہیں اور اصل مسئلہ کی طرف دھیان ہی نہ دے پائیں- جمہوری نمائندے عوام کی نفسیات سے کھیلتے رہے ہیں اور اپنا الو سیدھا کرتے رہے ہیں- یہ نہ بھولیں کہ دہشتگردی میں مرنے والوں کے ساتھ ساتھ ہزاروں زخمی بھی ہوۓ ہیں جو آج موت سے بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں-

پاکستان کو فی الوقت امن و امان کی جس صورت حال کا سامنا ہے اسکی ذمہ داری صرف سابقہ یا موجودہ حکومت پر ڈالنا سراسر غلط ہے- بیشک سب سے بڑی ذمّہ داری ہماری نادیدہ اور طاقتور اسٹیبلشمنٹ کی ہی ہے لیکن ساتھ ساتھ وہ تمام سیاستدان بھی ذمہ دار ہیں جو خود کو 'عوامی نمائندہ' کہتے ہیں- جنہوں نے پاکستانی عوام کو تقسیم در تقسیم کرنے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی- نتیجہ یہ کے آج کا پاکستانی معاشرہ اور عوام مکمّل طور پر کنفیوز اور حواس باختہ نظر آرہے ہیں.

ناہید اسرار

ناہید اسرار فری لانس رائیٹر ہیں۔ انہیں حالات حاضرہ پر اظہارخیال کا شوق ہے، اور اس کے لیے کی بورڈ کا استعمال بہتر سمجھتی ہیں- وہ ٹوئٹر پر deehanrarsi@ کے نام سے لکھتی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 30 مارچ 2025
کارٹون : 29 مارچ 2025