تین عرب ملکوں نے قطر سے اپنے سفیر واپس بلوالیے
ریاض: عالمی خبررساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق خلیج تعاون کونسل کے رکن قطر کے ساتھ کشیدگی میں انتہائی اضافے کے بعد بدھ کے روز خلیج عرب کے تین دولت مند ملکوں نے دوحہ سے اپنے سفیروں کو واپس بلوالیا۔ سعودی عرب ،متحدہ عرب امارات (یو اے ای) اور بحرین نے یہ اقدام قطر کی جانب سے مصر کی اسلامی سیاسی جماعت اخوان المسلمون اور خطے کے دوسرے ممالک میں اس کی شاخوں کی مسلسل حمایت کے ردعمل میں کیا ہے۔
ان تینوں ملکوں نے الزام عائد کیا ہے کہ قطر ان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کررہا ہے۔ بدھ کو جاری کردہ ایک مشترکہ بیان میں دوحہ میں تعینات اپنے اپنے سفیروں کو واپس بلانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ قطر نے علاقائی سکیورٹی معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے اور انہوں نے اپنی سلامتی کے پیش نظر یہ فیصلہ کیا ہے۔
اس فیصلے پر قطر نے افسوس اور حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ جواب میں ان ملکوں سے اپنے سفیروں کو واپس نہیں بلائے گا۔
متحدہ عرب امارات اور خلیج تعاون کونسل (جی سی سی) کے دیگر رکن ملکوں کے درمیان حالیہ برسوں میں کشیدگی میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ لیکن حالیہ معاملہ ، اس گروپ کے اندر پیدا ہونے والے تنازعات میں سب سے زیادہ شدید ہے۔
ریاض ، ابوظہبی اور بحرین کا خیال ہے کہ قطر اسلامی اور شدت پسند گروپوں کو اپنی مبینہ حمایت ترک کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ انہیں لگتا ہے کہ قطر، شام میں باغی گروہ النصرت فرنٹ کو ہتھیار فراہم کر رہا ہے جس کا تعلق القاعدہ سے ہے۔ قطر پر یمن اور مصر میں بھی باغیوں کی حمایت کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ تینوں ممالک نے قطر کو سمجھانے کی بہت کوشش کی تاکہ نومبر 2013ء میں کیے گئے معاہدے کو نافذ کیا جا سکے، جس کے تحت خلیج تعاون کونسل کے ارکان ملکوں کی سلامتی اور استحکام کو کوئی گروپ یا شخص کسی بھی طرح متاثر نہیں کر سکے۔ بیان میں کہا گیا ہے ’’بے حد افسوس کی بات ہے کہ قطر ایسا کرنے میں ناکام ہوا ۔‘‘
بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سلامتی اور استحکام کو یقینی بنانے کے لیے دوحہ سے اپنے سفیروں کو واپس بلانا ضروری ہو گیا تھا۔
قطر نیوز ایجنسی (کیو این اے ) نے قطری کابینہ کا وہ بیان شایع کیا ہے، جس میں خلیجی ممالک کے اس فیصلے پر مایوسی ظاہر کی گئی ہے لیکن یہ بھی کہا گیا ہے کہ قطر جوابی کارروائی میں اپنے سفیروں کو ان ممالک سے واپس نہیں بلائے گا۔
اس بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’قطر خلیج تعاون کونسل کی سیکورٹی اور استحکام کو برقرار رکھنے کے عزم پر قائم رہے گا۔‘‘
قطر پر یہ بھی الزام ہے کہ وہ مصر کے معزول صدر محمد مرسی کی پرزور حمایت اور شام میں اسلامی باغی گروپوں کی بھی مدد کرتا رہا ہے۔
معروف الجزیرہ نیوز نیٹ ورک بھی قطر میں واقع ہے، جس کی نشریات پوری دنیا میں دیکھی جاتی ہیں، اور جس کا رویہ سعودی عرب اور خلیج کے دوسرے ممالک کے حوالے سے کافی ناقدانہ رہا ہے۔
قطر میں 2002ء سے 2008 تک سعودی عرب کا سفیر موجود نہیں تھا، اس کی وجوہات میں ان پروگراموں کی اہم کردار رہا جنہیں الجزیرہ نے نشر کیا تھا۔
قطر کو اخوان المسلمون کا ایک اہم مالی اور سفارتی حامی سمجھا جاتا ہے جس پر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں پابندی ہے۔
ابھی پیر کو ہی قطر کے ایک شہری کو متحدہ عرب امارات میں سات سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ قطر کا یہ شہری اسلامی سیاسی سماج الاصلاح کی حمایت کرنے کا مجرم پایا گیا تھا۔
الاصلاح کے بارے میں سرکاری وکیلوں کا کہنا تھا کہ یہ مصر کے اخوان المسلمون کی ہی ایک مقامی شاخ ہے۔
دوسری جانب الجزیرہ کے نو صحافیوں پر مصر میں مقدمہ چل رہا ہے، ان پر شدت پسند تنظیم میں شامل ہونے یا اس کی مدد کرنے کا الزام ہے۔
سعودی عرب حسنی مبارک کو اپنا اہم اتحادی خیال کرتا تھا جبکہ قطر نے ان کے بعد منتخب ہونے والے اخوان المسلمون کے صدر ڈاکٹر محمد مرسی کی حکومت کوخطیر مالی امداد مہیا کی تھی۔اس کے علاوہ بھی ان کی ہر طرح سے حمایت کی تھی۔ یہاں تک کہ قطر خلیج عرب کا واحد ملک تھا جس نے مصر کی مسلح افواج کے سربراہ فیلڈ مارشل عبدالفتاح السیسی کے ہاتھوں ڈاکٹر محمد مرسی کی برطرفی اور اس کے اخوان المسلمون کے خلاف خونریز کارروائی کی مذمت کی تھی۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ کی رپورٹ کے مطابق متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب مصرکی فوج کی نگرانی میں قائم عبوری حکومت کے حامی ہیں اور ان دونوں ممالک کی حکومتوں نے اپنے ہاں اخوان المسلمون کے کارکنان اور حامیوں کے خلاف سخت کریک ڈاؤن کیا ہے جس کے دوران اس تنظیم سے وابستہ سیکڑوں کارکنان مارے گئے یا انہیں پکڑ کر پابند سلاسل کردیا گیا۔
یہ تینوں ممالک دوحہ میں مقیم معروف عالم دین علامہ یوسف قرضاوی کی اپنی حکومتوں کی پالیسیوں پر تنقید پر بھی نالاں ہیں اور ڈھکے چھپے لفظوں میں قطر سے اخوان المسلمون سے تعلق ختم کے علاوہ اس کے حامیوں کے خلاف کارروائی کا بھی مطالبہ کررہے ہیں لیکن قطر نے ان ممالک کے بار بار کے مطالبات کے باوجود اب تک ایسا کچھ نہیں کیا ہے۔
یواے ای نے گذشتہ ماہ قطری سفیر کو طلب کیا تھا اور ان سے علامہ یوسف قرضاوی کے مخالفانہ بیانات کی وضاحت طلب کی تھی اور ان پابندی لگانے کا مطالبہ کیا تھا۔ یو اے ای نے دوسرے دو ممالک کے ساتھ بدھ کو اپنے سفیر کو واپس بلانے کا فیصلہ کیا، لیکن واضح رہے کہ متحدہ عرب امارات کے سفیر گذشتہ کئی ماہ سے دوحہ میں موجود نہیں ہیں اور وہ پہلے ہی وطن واپس آچکے ہیں۔
تبصرے (1) بند ہیں