... ہم نے مانا کے تغافل نہ کرو گے لیکن
ہفتے کی شام تحریک طالبان پاکستان نے اپنی تخریب کارانہ کارروائیاں ایک ماہ کے لئے بند کرنے کا اعلان کیا، دوسرے دن اتوار کی شب قوم پاک و ہند کرکٹ میچ میں پاکستان کی شاندار کامیابی کی خوشیاں منا رہی تھی، کون جانتا تھا کہ یہ خوشیاں عارضی ہیں، چند گھنٹوں بعد ہمارے دلوں پر ایک اور زخم لگنے والا ہے-
پیر کی صبح پاکستان کے ہر نیوز چینل پر اسلام آباد ایف -8 ڈسٹرکٹ کورٹ پر ہونے والے دہرے خودکش حملے کی رپورٹ پیش کی جا رہی تھی جس میں ایڈیشنل سیشن جج رفاقت احمد اعوان، چار وکلا اور پولیس اہلکار سمیت گیارہ افراد جان بحق جبکہ پچیس افراد زخمی ہوۓ-
پوری قوم جیسے سکتے میں آگئی، کسی کی سمجھ نہیں آرہی کہ اب جبکہ سیز فائر کا اعلان ہو چکا ہے تو پھریہ کون ہے جو ہماری جانوں کا دشمن پیدا ہوگیا ہے- حسب معمول عذر خواہوں نے سوشل اور الیکٹرانک میڈیا پر چلانا شروع کردیا کہ اس حملے میں کسی 'تیسری قوت' کا ہاتھ ہے جو مذاکرات سبوتاژ کرنے کی کوشش ہے-
یہاں یہ یاد دلانا ضروری ہے کہ پچھلے ماہ فروری کے وسط میں وزارت داخلہ کے نیشنل کرائسز مینجمنٹ سیل نے نیشنل اسمبلی یہ رپورٹ پیش کی تھی کہ اسلام آباد ایک غیرمحفوظ شہر ہے جس میں کالعدم تنظیموں کے کئی سلیپر سیلز موجود ہیں-
یہ رپورٹ تب پیش کی گئی جب پنجاب خصوصاً اسلام آباد، پورے ملک میں پھیلی دہشتگردی کی لہر کے باوجود قدرے محفوظ تصور کیا جاتا رہا ہے، اس کا راز کیا ہے اس حوالے سے کئی تجزیہ نگار اپنے خیالات کا اظہار وقتاً فوقتاً کرتے رہے ہیں، بہرحال نیشنل کرائیسز مینجمنٹ سیل کی طرف سے کیا گیا یہ انکشاف بہت سے سوالات اٹھا گیا، سب سے پہلا سوال کہ آخر پنجاب کی حکومت اس حوالے سے کیا کر رہی ہے کیا اسے اپنے صوبے کی داخلی صورتحال کا اندازہ نہیں ہے؟
کالعدم تنظیموں کی موجودگی کوئی ایک دن کی کہانی تو نہیں لگتی اور ناہی یہ چند ماہ میں ممکن ہے، ایک مکمل خفیہ سیٹ اپ تیار کرنے میں سالوں لگ سکتے ہیں تو کیا پنجاب حکومت اتنی بےخبر رہی ہے کہ اسکی ناک کے نیچے ملک دشمن عناصر پنپتے رہے ہیں اور اسے خبر تک نہ ہوئی
رپورٹ نے ناصرف اسلام آباد بلکہ پورے ملک میں ایک ہلچل سی مچا دی- ٹھیک چوبیس گھنٹے بعد وزیر داخلہ چودھری نثار صاحب نے یہ تمام خدشات مسترد کرتے ہوے اسلام آباد کو پورے ملک میں سب سے محفوظ شہر قرار دیا-
چودھری صاحب کا یہ دعویٰ تھا کہ کوئی بیرونی قوت شہر کا امن و امان پامال کرنے کے درپے نہیں ہے اور یہ کہ چھبیس سیکورٹی ایجنسیان شہر کی حفاظت پر مامور ہیں-
یہ تمام دعوے محض بارہ دن بعد، تین مارچ بروز پیر غلط ثابت ہوۓ- ایک باضابطہ منصوبے کے تحت اسلام آباد ڈسٹرکٹ کورٹ کو دہشتگردی کا نشانہ بنایا گیا-
لیکن یہاں ہم اس سانحہ پر بات نہیں کر رہے- ہم وزیر داخلہ چودھری نثار کی نیشنل اسمبلی کی اس تقریر پر بات کرنے جا رہے ہیں جو مذکورہ افسوسناک واقعہ کی شام انہوں نے پیش کی-
ملک کے دارالحکومت میں ہونے والی تخریب کارانہ کارروائی کے پسمنظر میں چودھری صاحب کی تقریر میں clarity اور ارادے کی کمی شدّت سے محسوس ہوئی، نا ہی قومی سلامتی پالیسی کے حوالے سے ان کے پاس کوئی واضح جواب موجود تھا- اپنے روایتی انداز میں انہوں نے سابقہ حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا-
تقریر کا آغاز ہی میں انہوں نے یہ مبہم اشارہ دے دیا کہ عوام نے بہت قربانیاں دی ہیں اور آگے بھی دیتے رہنا ہے کیونکہ فی الحال حکومت، انتہا پسندی کے مسئلہ سے نمٹنے کی اہل نہیں ہے یا شاید ارادہ نہیں رکھتی- اپنی پوری تقریر میں وہ ایک وزیر داخلہ کی بجاۓ ایک ایسے مجبور شخص لگے جو اپنی صفائی میں سواۓ الله رسول کا واسطہ دینے کے اور کچھ نہیں کرسکتا-
انہوں نے یہ صاف کہہ دیا کہ دہشتگردی سے نمٹنا مستقبل قریب میں ممکن نہیں کیونکہ حکومت کے پاس کوئی واضح لائن آف ایکشن موجود نہیں، کمال کی بات ہے کہ پچھلے چند دنوں کی کامیاب فوجی کارروائی کی وجہ سے ملک دشمن عناصر اور ان کے عذر خواہوں میں پھیل جانے والی بوکھلاہٹ کے باوجود وزیر داخلہ یہ کہہ رہے ہیں کہ دہشتگردی کا علاج آسانی سے ممکن نہیں ہے جبکہ پچھلے بارہ سالوں سے برسر پیکار پاک فوج اب اس قابل ہے کہ ان عناصر کا مقابلہ کر سکتی ہے-
انکا یہ بھی کہنا تھا کہ پچھلی حکومتوں نے اس مسئله سے نمٹنے کے لئے کوئی اقدامات نہیں کیے، تو جناب چودھری صاحب آپ کی حکومت کو بھی تو ایک سال ہونے والا ہے آپ نے کیا تیر مار لیا، سواۓ مذاکرات مذاکرات (عوام اسے مذاق رات کے نام سے بھی یاد کرتی ہے) کی رٹ لگانے، پالیسیان ترتیب دینے اور کمیٹیاں بنانے کے؟
ایک طرف آپ کہتے ہیں ہماری پولیس اندر کے ناسور سے نمٹنے کے لئے تربیت یافتہ نہیں ہے، تو کیا اس ایک سال عرصہ میں آپ نے کوئی ایسا ٹریننگ انسٹیٹیوٹ یا ٹریننگ سیل قائم کیا، جس میں پولیس اہلکار تخریب کاری سے نمٹنے کی تربیت حاصل کرسکیں؟
کیا آپ نے پچھلے دس بارہ سالوں سے دہشگردوں کے خلاف نبرد آزما سینئر پولیس افسران کی خدمات حاصل کرنے کی کوشش کی؟
آپ کی وہ چھبیس سیکورٹی ایجنسیان کہاں گئیں جو شہر کی حفاظت پر مامور تھیں؟
یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں کہ موجودہ حکومت میں دہشتگردی سے نمٹنے کے لئے resolve کی کمی ہے اور یہ صاف نظر آرہی ہے، ساتھ ہی وزیر داخلہ اور انکی ٹیم کے درمیاں کوآرڈینیشن کا بھی فقدان نظر آتا ہے-
وزیر داخلہ نے اپنی تقریر میں اسلام آباد واقعہ کو دہشتگردی کی ایک random کارروائی کا رنگ دینے کی کوشش کی- یہ کوئی عام دہشتگردی کا واقعہ نہیں تھا جس کا مقصد خوف و ہراس پھیلانا ہو بلکہ یہ ٹارگٹ کلنگ کی کارروائی تھی اور اس کا نشانہ سینئر جج رفاقت احمد اعوان تھے جنہیں دیگر وکلاء کے ساتھ گولیوں کا نشانہ بنا کر ہلاک کیا گیا، خودکش دھماکہ صرف اس قتل کے cover up کے لئے استعمال کیا گیا تھا- کم ازکم پوسٹ مارٹم رپورٹ تو پڑھنے کی زحمت کر لیتے-
وزیر داخلہ اپنی تقریر میں نیشنل اسمبلی کے سامنے بڑے جوش کے ساتھ دعویٰ کرتے رہے کہ وہ اور انکی ٹیم اس واقعہ کے اصل مجرموں کو سامنے لے کر آئیں گے اور انہیں کٹہرے میں کھڑا کریں گے، ویسے آج تک تو ایسا ہوا نہیں کہ ہمارے سیکورٹی اداروں نے دہشتگردی میں ملوث تنظیموں کی شناخت کی ہو.
کسی بھی تخریبی کارروائی کے چند گھنٹوں بعد کالعدم تنظیمیں خود ذمہ داری قبول کرتی نظر آتی ہیں. اس بار بھی یہی ہوا اور ذمہ داری 'احرار الہند' نامی ایک نئی تنظیم نے قبول کی ہے، ایک ایسی تنظیم جس کا چند دن پہلے تک کوئی نام و نشان نہ تھا، جس نے تحریک طالبان پاکستان سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے اور تحریک طالبان پاکستان نے بھی اس تنظیم اور مذکورہ کارروائی سے کسی قسم کے تعلق سے انکار کیا ہے-
تو پھر اب وزیر داخلہ کا کیا لائحہ عمل ہوگا، احرار الہند چودھری صاحب کے طالبانی بھائیوں سے تو وابستہ ہیں نہیں تو کیا ان کے خلاف کارروائی کی جاۓ گی؟ یا ان کے ساتھ بھی مذاکرات کا ارادہ رکھتے ہیں؟
کیا حکومت اپنا اسٹریٹجک کھیل اسی طرح کھیلتی رہے گی، اس مسئله کو آج اور کل پر ٹالتی رہے گی اور معصوم، جواں جانیں یوں ہی قربان ہوتی رہیں گی؟
تبصرے (3) بند ہیں