اعتدال پسند جج کو نشانہ بنایا گیا
اسلام آباد: ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج رفاقت احمد خان اعوان، جو کل بروز پیر کو دہشت گرد حملے میں ہلاک ہوگئے۔ چند ماہ بعد ہی آزمائشی مدت مکمل کرنے کے بعد انہیں بطور جج مستقل کیا جانا تھا۔
رفاقت اعوان جو اپنے حلقہ احباب میں اعتدال پسندانہ خیالات کی وجہ سے معروف تھے، انہوں نے ایک سال پہلے ہی سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کی درخواست خارج کردی تھی۔
انہوں نے گزشتہ سال چوبیس اپریل کو لال مسجد کے پیش امام عبدالرشید غازی کے بیٹے کی ایک درخواست مسترد کی تھی، جس میں سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف لال مسجد پر ایک آپریشن شروع کرنے کے خلاف ایک ایف آئی آر درج کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔
اس درخواست کو مسترد کرتے ہوئے رفاقت اعوان نے کہا تھا کہ سات سال کے بعد اس پٹیشن کا مقصد سستی شہرت حاصل کرنا ہے۔
انہوں نے 1997ء میں ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی اور 1998ء میں سابق ڈپٹی اٹارنی جنرل طارق محمود جہانگیری کے چیمبر میں انہوں نے انٹرن شپ کیا۔
اس کے بعد انہوں نے ایک آزاد وکیل کے طور پر پریکٹس شروع کی، لیکن پھر وہ کینیڈا چلے گئے، جہاں سے وہ تقریباً پانچ سال پہلے واپس لوٹے اور اسلام آباد میں پریکٹس شروع کردی۔
انہوں نے 2012ء میں اسلام آباد جیوڈیشل سروس کا امتحان پاس کیا اور ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج مقرر ہوئے۔ ان کی دو سالہ آزمائشی مدت تقریباً ختم ہونے والی تھی۔
درحقیقت وفات کے چند منٹ پہلے رفاقت اعوان ایک اسکول کے وکیل سے اپنی آزمائشی مدت کے بارے میں بات کررہے تھے۔
انہوں نے اعتراف کیا تھا کہ اسکول میں ایڈمیشن کے طریقہ کار کے خلاف اسکول کی حکم امتناعی کی اپیل پاس کردی گئی تھی۔
یہ حکم امتناعی ایک وکیل کی درخواست پر دیا گیا تھا، جس نے یہ درخواست اپنے بچوں کو اسکول میں داخلہ نہ دینے پر اسکول کی انتظامیہ کے خلاف دائر کی تھی۔
تبصرے (1) بند ہیں