سانحہ اسلام آباد :سپریم کورٹ کا تحقیقات کا حکم
اسلام آباد: سپریم کورٹ پاکستان نے حکام کو گزشتہ روز اسلام آباد کورٹ کے احاطے میں ہونے والے خود کش حملے اور فائرنگ کا جواب دینے میں ناکام ہونے والے پولیس اہکاروں کی شناخت کا حکم دیا ہے۔ اس حملے میں گیارہ افراد ہلاک ہوئے تھے۔
چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے پیر کو ہونے والے دھماکے پر اعلٰی سیکورٹی حکام کو طلب کیا گزشتہ روز کا حملہ دارالحکومت میں پچھلے پانچ سالوں میں سب سے زیادہ مہلک حملہ تھا۔
پاکستان دو ہزار سات سے طالبان کی پر تشدد کاروائیوں سے نبردآزما ہے تاہم پیر کو ہونے والے حملے پر ٓحکام سے شہر کی سیکورٹی کے حوالےسے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔
سپریم کورٹ نے حملے پر از خود نوٹس لیتے ہوئے واقعے کی تفصیلی رپورٹ پیر تک طلب کی ہے، عدالت نے اسلام آباد اور جڑواں شہر راولپنڈی کی عدالتوں میں اڑتالیس گھنٹوں کے اندر اندر سی سی ٹی وی کیمروں کو مکمل فعال بنانے کا حکم دیا ہے۔
وزارت داخلہ میں چیف بیوروکریٹ شاہد خان نے عدالت کو بتایا کہ ضلعی عدالتوں میں کیمرے اور تین سیکورٹی اسکینر گیٹ کچھ عرصے پہلے ٹوٹ گئے ہیں۔
اعلٰی جج نے سیکریٹری داخلہ کو اڑتالیس گھنٹوں کے اندر اندر سی سی ٹی وی کیمرے فعال بنانے اور لواحقین کے لیے آج شام تک معاوضے کا اعلان کرنے کی ہدایت کی ہے۔
اسلام آباد پولیس کے سربراہ سکندر حیات کو بھی سیکورٹی سے متعلق تفصیلی رپورٹ اور حملے پر اپنا جواب پیر کو جمع کرانے کی ہدایت کی گئی ہے۔
چیف جسٹس جیلانی نے اسلام آباد ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر اور سیکریٹری کو واقعے کے عینی شاہدوں کو پیش کرنے کی ہدایت کی ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ انہیں اپنے بیان میں وضاحت کرنی چاہیے کہ انہوں نے کیا دیکھا تھا،اور بتائیں کہ ان کی کوششوں کے بعد پولیس والوں کے رویے میں سردمہری کیوں تھی اور وہ حملہ آور پر فائر کرنے سے کیوں کتراتے رہے۔
پیر کو اسلام آباد کچہری پر حملہ دو ہزار گیارہ کے بعد سے شہر میں پہلا بڑا حملہ تھا۔
تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی) نے پیر کے حملے سے دو دن پہلے ایک ماہ کی جنگ بندی کا اعلان کیا تھا، انہوں نے کچہری پر حملے سے لاتعلقی کا اظہار کیا تھا۔
غیر معروف پاکستانی طالبان کے سابقہ گروپ احرار الہند نے حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
گروپ نے حال ہی میں حکومت کے ساتھ مذاکرات کی پاداش میں ٹی ٹی پی سے علیحدگی کا اعلان کیا تھا۔
وزیر اعظم نواز شریف کے جنوری میں امن مذاکرات کے اعلان کے بعد سے عسکریت پسندوں کے حملے میں اب تک ایک سو دس سے زیادہ افراد ہلاک ہو گئے ہیں جبکہ مبصروں کی طرف سے حکومت طالبان امن مذاکرات پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔