جنسی تبدیلی: غریب خاندان کو کماؤ پوت مل گیا
راولپنڈی: اگرچہ اس کے خاندان کو یہ سوچ کر بہت زیادہ خوشی محسوس ہوتی ہے کہ ان کے ساتھ ایک اور مرد کا اضافہ ہوگیا ہے، لیکن شہر میں پاکستان ریلویز ہسپتال میں پڑا نوجوان عبدالرحیم شناخت کے بحران سے گزر رہا ہے۔
سولہ برس کے اس نوجوان نے ڈان کو بتایا ’’اپنےپوشیدہ اعضاء کی سرجری سے گزرنے کے بعد میں اب ایک مرد ہوں۔ لیکن میں ان لوگوں پر اپنی اس تبدیلی کی وضاحت کیسے کروں جو پچھلے تمام سالوں سے مجھے بطور روبینہ کے پہنچانتے ہیں۔‘‘ ہسپتال کے بستر پر لیٹے ہوئے عبدالرحیم اپنی اس تبدیلی کےبعد شرارتی دکھائی دے رہے تھے۔
بہرحال چیچہ وطنی کے خاندان میں شامل ہونے والا یہ نیا مرد اپنی آئندہ زندگی کے بارے میں پُرجوش ہے۔
عبدالرحیم نے بتایا ’’میری طویل عرصے سے خواہش تھی کہ میں تعلیم حاصل کروں، اور آپ جانتے ہی ہیں کہ غریب گھرانوں کی لڑکیوں کو ہمارے قدامت پرست معاشرے میں اس کا شاذونادر ہی موقع مل پاتا ہے۔ اب ایک مرد بن جانے کے بعد امید ہے کہ میرے لیے اپنی خواہش کو پورا کرنا کسی حد تک آسان ہوجائے گا۔‘‘
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس خاندان میں رحیم دوسرے فرد ہیں، جو صنفی تبدیلی کے عمل سے گزرے ہیں۔
ان کی بڑی بہن ثمینہ بالکل اسی طرح، اسی ہسپتال میں 2006ء کے دوران سرجری کے عمل سے گزرنے کے بعد شہیر عباس میں تبدیل ہوگئی تھیں۔ جس طرح روبینہ عبدالرحیم میں تبدیل ہوگئی ہیں۔
ظہیر عباس جو پیدائشی مرد ہیں اور پہلے ان کے اکلوتے بھائی تھے، کہتے ہیں کہ ’’جب وہ بلوغت کی عمر میں پہنچیں تو انہیں شدید درد محسوس ہوا۔ چیچہ وطنی میں ایک ڈاکٹر نے ان کے اندر صنفی تبدیلی کی علامات دیکھیں اور پھر ہم ثمینہ کی طرح انہیں یہاں لے آئے۔‘‘
انہوں نے بے ساختہ ہنستے ہوئے کہا ’’پہلے ہم تین بہنیں اور ایک بھائی تھے۔ اب یہ مساوات اس طرح تبدیل ہوگئی ہے کہ اب ہم تین بھائی اور ایک بہن ہیں۔‘‘
’’شہیر جو پہلے ثمینہ تھے، ایک بیکری چلاتے ہیں اور اگلے مہینے ان کی شادی ہورہی ہے۔‘‘
ظہیر عباس کو یقین ہے کہ عبدالرحیم اپنی شناخت کے بحران پر قابو پالے گا ’’اور شہیر کی طرح سیٹ ہوجائے گا، جو ایک بیکری چلاتے ہیں اور اگلے ماہ شادی کررہے ہیں۔‘‘
تاہم پاکستان ریلویز ہسپتال کے یورولوجی ڈیپارٹمنٹ کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر احمد رحمان کہتے ہیں کہ ڈاکٹر کسی فرد کی صنف کو تبدیل نہیں کرسکتے۔
انہوں نے ڈان کو بتایا ’’کوئی یا تو بطور لڑکا پیدا ہوتا ہے یا لڑکی، لیکن بعض اوقات جینیاتی مسائل اور ہارمون کے عدم توازن کی وجہ سے تناسلی اعضاء پوشیدہ ہوجاتے ہیں اور ڈاکٹر محض آپریٹ کرکے ان کو ظاہر کردیتے ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا ’’روبینہ کا خاندان جب انہیں ہمارے پاس لے کر آیا تو اس وقت ان کے اندر ایک عورت بننے کی علامات ظاہر نہیں ہوئی تھیں۔ پیتھالوجیکل ٹیسٹ سے ظاہر ہوا کہ یہ مریض ایک مرد ہے اور اس کی اصل شناخت کو بحال کرنے کے لیےسرجری کے عمل کی ضرورت ہے۔‘‘
پروفیسر ڈاکٹر رحمان نے بتایا ’’حالیہ برسوں کے دوران بہت سے ایسے کیسز ہسپتال میں لائے گئے تھے۔ اس طرح کے کیسز میں صنفی شناخت کو سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ڈاکٹر بچوں کی پیدائش کے فوراً بعد والدین کو بتاسکتے ہیں، اور ابتدائی سرجری کے ذریعے شناخت کے فضول بحران سے بچا جاسکتا ہے۔‘‘
تاہم اس طرح کے مریضوں کو خاندان اور جاننے والوں کی ہمدردی، مدد اور ان کی کیفیت کو سمجھنے کی بہت زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔
ڈاکٹر احمد رحمان نے کہا کہ عام طور پر لڑکی سے لڑکا بننے والے کو صنفی تبدیلی کے بعد پلاسٹک سرجری کی ضرورت نہیں پڑتی۔
انہوں نے کہا ’’ایسے کیسز جن میں پلاسٹک سرجری کی ضرورت پڑے، بہت کم ہوتے ہیں۔‘‘
راولپنڈی میڈیکل کالج کے سابق پرنسپل اور یورولوجی کے پروفیسر ڈاکٹر افضل فاروقی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ پوشیدہ اعضاء کے کیسز بہت کم ہوتے ہیں جس میں بچے کی جنس واضح نہیں کی جاسکتی، اس لیے ہوتے ہیں کہ مردانہ اعضاء اندرونی طور پر موجود ہوتے ہیں لیکن ظاہر نہیں ہوتے اور اندرونی طور پر آہستہ آہستہ بڑھتے رہتے ہیں۔