• KHI: Asr 5:03pm Maghrib 6:47pm
  • LHR: Asr 4:34pm Maghrib 6:21pm
  • ISB: Asr 4:40pm Maghrib 6:27pm
  • KHI: Asr 5:03pm Maghrib 6:47pm
  • LHR: Asr 4:34pm Maghrib 6:21pm
  • ISB: Asr 4:40pm Maghrib 6:27pm

مذاکرات یا مکّا لات؟ فیصلہ جلد کریں

شائع February 26, 2014
اس کینسر کا خاتمہ کرنا ہے تو بڑے پیمانے پر کریں اور ملک کے تمام حصّوں میں کریں تاکہ ان ملک دشمن عناصر کو کہیں چھپنے کا موقع نہ ملے
اس کینسر کا خاتمہ کرنا ہے تو بڑے پیمانے پر کریں اور ملک کے تمام حصّوں میں کریں تاکہ ان ملک دشمن عناصر کو کہیں چھپنے کا موقع نہ ملے

ایک غریب بیوہ کے گھر کھانے کو کچھ نہ تھا، بھوکے بچے کھانے کے انتظار میں بیٹھے اسکا منہہ تک رہے تھے. عورت نے پتیلی میں پانی بھر کر چولہے پر رکھ دیا اور بچوں سے کہا جب تک کھانا پک رہا ہے آؤ میں تمہیں لوری سناتی ہوں- بچے بستر میں گھس کر لیٹ گۓ اور عورت نے لوری سنانی شروع کی، لوری میں انواع اقسام کی نعمتوں کا ذکر بھرا پڑا تھا، بھوکے بچے بڑے شوق سے لوری سنتے رہے اور بلآخر سو گۓ-

گزشتہ کئی سالوں سے انتہا پسندوں کی دہشتگردی کی شکار، زخمی اور دہشت زدہ عوام، پچھلے نو ماہ سے امن اور مذاکرات کی لوری ہی سنتی آرہی ہے- ان نو ماہ میں مسلسل عوام کو یہ باور کرایا جاتا رہا کہ ملک میں امن و امان کے قیام کے لئے مذاکرات سے بہتر کوئی علاج نہیں-

عذر خواہوں نے مسلسل ایک ہی رٹ لگاۓ رکھی کہ طالبان ہمارے اپنے ہیں (یہ جانتے ہوۓ بھی کہ تحریک طالبان میں اکثریت ازبک، چیچن اور عربوں کی ہے عوام کو جان بوجھ کر غلط narrative دیا گیا)، اپنے حقوق مانگتے ہیں، انہیں سمجھنے میں غلطی کی گئی وغیرہ وغیرہ-

ان نو ماہ میں پاکستان کی شہری آبادی جتنی تیزی سے پولرائز (Polarize) ہوئی پچھلے دس سالوں میں نہیں ہوئی تھی، خصوصاً سندھ اور پنجاب کے شہری علاقوں میں- الیکٹرونک اور سوشل میڈیا پر طالبان نواز اور طالبان مخالف گروہوں کے بیچ مسلسل ایک جنگ سی چھڑی رہتی ہے-

ان نو مہینوں میں وہ کیا گیا جو دس سالوں میں نہ ہو سکا، انتہا پسندی کی رسائی الیکٹرونک میڈیا تک ہوگئی، جن خیالات کا اظہار دبے لفظوں میں کیا جاتا تھا، اب علی الاعلان کیا جانے لگا- تحریک طالبان کو ایک نظریاتی قوّت بنا کر پیش کیا جانے لگا جو قران و سنت کی حکمرانی چاہتے ہیں-

اس دوران، خوف و دہشت کا رقص یوں ہی چلتا رہا- میڈیا کو دھمکیاں دی گئیں، خودکش حملے، مخصوص برادریوں کے قتل عام، اغوا وغیرہ میں کوئی کمی نہ آئی ہاں البتہ اضافہ ضرور ہوا-

بہرحال، نو ماہ کی پوری تیاری کے بعد اور عوام کو ذہنی طور پر مذاکرات کے لئے تیار کرلینے کے بعد بلآخر انتیس جنوری کو مذاکرات کا اعلان بھی ہوگیا، کمیٹیاں تیار ہوگئیں، دونوں جانب سے stakeholders کو میڈیا پر مکمل کوریج دی گئی بہت شور وغوغا مچایا گیا، لیکن اٹھارہ دن گزر جانے کے باوجود ملک میں انتہا پسند حملوں میں کمی نہیں آئی، پاکستان آگ و خون میں جلتا رہا-

تاثر تو یہی دیا جا رہا تھا کہ دونوں پارٹیاں مذاکرات کے لئے سنجیدہ ہیں لیکن حقائق کچھ اور ہی بتا رہے تھے- طالبان نے جوش میں آکر تین سال سے اپنی قید میں موجود تئیس ایف سی جوانوں کو قتل کر ڈالا اور انٹرنیٹ پر اس کی ویڈیو جاری کر دی- حکومت کو جیسے بہانہ مل گیا، مذاکرات کا بائیکاٹ کر کے ان تئیس ایف سی جوانوں کی موت کا جواب دینے کے اعلان کیے جانے لگے-

اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب سے مذاکرات شروع ہوۓ ہیں انتہا پسندوں کے ہاتھوں سویلین اور قانون کے محافظ ملا کر سینکڑوں پاکستانی زخمی یا مارے جا چکے ہیں، اور پچھلے دس سالوں میں ہزاروں لیکن حکومت اور اسکی کمیٹی کو صرف یہی تئیس ایف سی جوان نظر آۓ؟ کیا باقی مرنے والے پاکستان کے شہری نہیں تھے؟

جواب واضح ہے --- حکومت، طالبان پر دباؤ ڈالنا چاہتی ہے، وہ چاہتی ہے کہ طالبان انکی دی گئی پیشکش قبول کرلیں اور قبائلی علاقوں تک ہی محدود رہیں- یہاں میاں صاحب کو یہ سمجھنے ضرورت ہے کہ طالبان کوئی وائرل انفیکشن نہیں ہیں جسے ایک مخصوص حصّے تک محدود کیا جاسکتا ہے یہ ایک ایسا کینسر ہے جو پورے ملک میں پھیل چکا ہے حتیٰ کے پنجاب میں بھی.

میاں صاحب کو یہ حقیقت قبول کرلینی چاہیے، کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرلینے سے حقیقت بدل نہیں جاۓ گی، آپ اپنی ضرورت کے تحت اس کینسر کو کنٹین (contain) کر کے نہیں رکھ سکتے، یہ بار بار اپنا بدصورت چہرہ دکھاۓ گا-

اول تو تحریک طالبان سے مذاکرات ہونے ہی نہیں چاہئیں، کیوں کہ اس کا کوئی قانونی سیاسی وجود (legitimate political entity ) نہیں ہے، اس تنظیم نے ملک کو سیاسی، سماجی اور اقتصادی ہر پہلو سے ناقابل تلافی نقصان پنہچایا ہے. اس نے بین الاقوامی طور پر پاکستان کی ساکھ کو نقصان پنہچایا ہے، ہزاروں سویلین اور فوجیوں کے قاتل ایسے عناصر کو ریاست کا دشمن (enemy of state ) کہا جاتا ہے ان سے مذاکرات نہیں کیے جاتے بلکہ انکا خاتمہ کیا جاتا ہے-

مذاکرات میں تعطل کے بعد سے شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے نام پر چوہے بلی کا کھیل کھیلا جا رہا ہے (جسے بعض تجزیہ نگار سرجیکل آپریشن کا نام بھی دیتے ہیں). درحقیقت فوج اور حکومت نے 'ایک ہمارا تو ایک تمہارا' والی روش اپنا رکھی ہے. کنفیوز عوام کو یہ لگتا ہے کہ حکومت اب اس کینسر کے خاتمے میں سنجیدہ ہے لیکن ایسا نہیں ہورہا یہ چوہے بلی کا کھیل چلتا رہا گا، عوام کو کبھی آپریشن تو کبھی مذاکرات کی لوری سنا سنا کر حکومت بہلاتی رہے گی-

ان آپریشنز سے فقط اتنا ہوگا کہ یہ عناصر ملک میں مزید گہرائی میں پھیل جائیں گے، سنہ دو ہزار نو میں سوات ڈیل کے بعد بھی یہی سب کچھ ہوا، دارلحکومت سے صرف سو میل کی دوری پر موجود اس تنظیم کو سوات آپریشن کے بعد پنجاب میں مزید پھیلنے کا موقع ملا-

ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ پنجاب مذہبی تبلیغی جماعتوں کا گڑھ ہے اور طالبان کو انکی بھرپور حمایت حاصل ہے- یہ کہہ دینا کہ اسلام آباد میں کوئی خطرہ نہیں فقط دل کو بہلانے کا ایک بہانہ ہے- تجزیہ نگار بار بار یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ میاں صاحب پنجاب کو بچانے کے چکر میں پورا ملک داؤ پر لگا رہے ہیں-

میاں صاحب ایک بات سمجھ لیں کہ جو صورتحال اس وقت ملک کی ہے، پاکستان کا نہ کوئی حال نظر آتا ہے نہ مستقبل- آپ اگر مذاکرات کرنا چاہتے ہیں تو مذکرات کریں، یہ قیاس آرائیوں کے پردے سے باہر نکلیں، کنفیوز عوام کو بتائیں کہ آپ مذاکرات کس بنیاد پر کر رہے ہیں اور طالبان کو کیا پیشکش کی جا رہی ہے- عوام کو پیش نظر چیلنج اور خطرے سے آگاہ کیا جاۓ-

اگر اس کینسر کا خاتمہ کرنا ہے تو بڑے پیمانے پر کریں اور ملک کے تمام حصّوں میں کریں تاکہ ان ملک دشمن عناصر کو کہیں چھپنے کا موقع نہ ملے، میڈیا پر طالبانی کیمپین (campaign ) پر پابندی عائد کی جاۓ، انٹرنیٹ پر ایسی تمام ویب سائٹس بلاک کی جائیں جو نفرت انگیز مواد اور ٹی ٹی پی پروپیگنڈا پھیلا رہی ہیں، یو ٹیوب کی کامیاب بندش کے بعد ہم یہ کام با آسانی کر سکتے ہیں-

آخر میں ایک بار پھر، اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ طالبان قبائلی علاقوں تک محدود رہیں گے تو یہ آپ کی غلطی ہے، یہ تنظیم محدود رہنے کے لئے نہیں بنی، پاکستان کے بعد اس نے انڈیا اور ایران پر ہاتھ صاف کرنا ہے، ظاہر ہے یہ دونوں ممالک خاموش نہیں بیٹھیں گے انہوں نے اپنا دفاع کرنا ہے، نتیجتاً جو کچھ بھی ہوگا مصیبت پاکستانی عوام پر ہی آنی ہے- اس لئے جو فیصلہ کریں پوری کلئیریٹی (clarity ) کے ساتھ عوام کو اعتماد میں لے کر کریں کیوں کہ یہی فیصلہ ثابت کرے گا کہ آپ کو تاریخ میں کس حوالے سے یاد کیا جاۓ-

ناہید اسرار

ناہید اسرار فری لانس رائیٹر ہیں۔ انہیں حالات حاضرہ پر اظہارخیال کا شوق ہے، اور اس کے لیے کی بورڈ کا استعمال بہتر سمجھتی ہیں- وہ ٹوئٹر پر deehanrarsi@ کے نام سے لکھتی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تبصرے (2) بند ہیں

معین الدین Feb 26, 2014 02:55pm
آپ لوگوں کی آواز اتنی کمزور کیوں ہے۔ کیوں اہلِ اقتدار یہ آواز نہیں سن رہے۔ طالبان نے اگر انڈیا اور ایران پر بھی ہاتھ صاف کرنا ہے تو انڈیا ان لوگوں کی کوں مدد کر رہا ہے، کیوں ان لوگوں کی سرپرستی سے ہاتھ نہیں کھینچ لیتا۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہ سب کبوتر کی طرح آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں۔ اور ساتھ ہی ساتھ اپنے ذاتی ایجنڈے کو بھی آگے چلانا چاہتے ہیں۔ قوم کا نام جہادی لیکن قوم کی فوج ہے لڑنے کے نام سے ڈرتی ہے۔
Kamran Feb 27, 2014 06:04am
There should be no dialogues just wipe them out. This tribal and barbaric ideology is a deadly cancel and virus for the civilized world and has to be eliminated immediately. In the civilized world, we wonder how could they hehead someone but in tribal areas, it is a norm ever a 12 year old kid could do that and won't feel a thing. this is part of their lives. That has to be addressed and incorporate those tribal areas into the main stream but unfortunately in the last 65 nyears, we never did that... in fact we did exactly the opposite.

کارٹون

کارٹون : 30 مارچ 2025
کارٹون : 29 مارچ 2025