سڑکوں پر تباہی
یہ 2011 کی بات ہے جب مسافروں سے کھچا کھچ بھری ایک بس، جس میں اسکول کے بچے سوار تھے، پنجاب میں کلر کہار کے نزدیک ایک نالے میں گر گئی جس میں چالیس بچے ہلاک ہو گئے تھے-
اس افسوسناک واقعے نے کچھ عرصے کیلئے ہماری توجہ سڑکوں اور گاڑیوں کے حفاظتی اقدامات اور پہلوؤں کی جانب موڑ دی تھی تاہم وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ مسئلہ اخبارات کے پچھلے صفحوں پر چلا گیا اور آج تقریباً دو سال کا عرصہ گزرنے باوجود ہمیں نہیں معلوم کہ اس قسم کے حادثات کی روک تھام کیلئے ہم نے کیا اقدامات اٹھائے ہیں-
کلر کہار کا یہ واقعہ ہماری روڈ سیفٹی پالیسی کی خامیوں کا آئینہ دار تھا جس کیلئے ہم حکومت کی جانب سے نظر انداز کیے جانے اور روڈ سیفٹی کے حوالے سے سنجیدہ آوازوں کی کمی کے شکر گزار ہو سکتے ہیں- دنیا بھر میں سڑکوں پر ہونے والے حادثات میں دس لاکھ سے زیادہ افراد اپنی جانیں گنواتے ہیں جبکہ مزید دو سے تین کروڑ افراد زخمی ہوتے ہیں-
ہلاک ہونے والوں میں نوجوان بڑوں اور بچوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے- اور معیشت پر اس حوالے سے آنے والی قیمت کا تناسب ملکوں کی مجموعی قومی پیداوار کا ڈیڑھ سے ساڑھے چار فیصد تک ہوتا ہے- دنیا بھر میں سڑکوں پر ہونے والے نوے فیصد سے زیادہ حادثات ترقی پذیر ملکوں میں ہوتے ہیں جہاں دنیا کی آدھے سے زیادہ گاڑیاں موجود ہیں-
تاہم یہ سب کچھ تبدیل ہو رہا ہے اور زیادہ تر ترقی پذیر ملکوں نے سڑکوں پر حادثات میں کمی کے لئے سنجیدہ کام اور اقدامات اٹھانے شروع کر دیے ہیں- اقوام متحدہ نے بھی موجودہ دہائی کو ایسی دہائی قرار دیا ہے جس میں سڑکوں پر حادثات کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں میں کمی کے لئے کام کرنا ہے- اب تک سو سے زیادہ ملکوں نے اس حوالے سے دس سالہ ایکشن پلان کا حصہ بننے پر رضامندی ظاہر کر دی ہے-
پاکستان بھی اس پلان پر دستخط کرنے والے ملکوں میں سے ایک ہے- اس کے باوجود، سڑکوں پر حادثات کم کرنے کیلئے کسی جامع اور مربوط پلان پر کام کی ابتدا نہ ہونا حیران کن ہے- حالانکہ اس حوالے سے اقوام متحدہ کے ادارے مسلسل بول رہے ہیں جن میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن بھی شامل ہے-
اس حوالے سے پایا جانے والا یہ تضاد اس لئے بھی تشویشناک ہے کہ گاڑیوں کی ملکیت بہت تیزی سے بڑھی ہے- اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2001 میں گاڑیوں کی تعداد صرف پچاس لاکھ تھی جبکہ 2012 میں یہ تعداد ایک کروڑ دس لاکھ تک پہنچ چکی تھی- اس تعداد میں موٹرسائیکلز شامل نہیں جن کی تعداد تو ملک میں کسی قابل انحصار اور محفوظ پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم کی عدم موجودگی کی وجہ سے بہت ہی ہوشربا انداز میں بڑھی ہے-
زیادہ گاڑیوں کی ملکیت سے پاکستان میں سڑکوں پر ہونے والے حادثات میں مرنے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے- دوسری بہت سی چیزوں کی طرح اس حوالے سے بھی کوئی قابل بھروسہ ڈیٹا موجود نہیں- اعداد و شمار کے مطابق، سڑکوں میں حادثات کے نتیجے میں ہونے والی اموات کی تعداد پانچ سے بیس ہزار سالانہ تک ہو سکتی ہے-
کچھ لوگوں کے لئے تو بیس ہزار کا ہندسہ بھی شاید کم ہی ہو کیونکہ ان اعداد و شمار میں ایسے زخمی تو شامل ہی نہیں جنہیں کم سنجیدہ نوعیت کے زخم آتے ہیں- زیادہ تر ان زخمیوں کے علاج کیلئے عام ڈاکٹروں سے رجوع کیا جاتا ہے اور ان زخمیوں میں بڑی تعداد بچوں کی ہوتی ہے-
ان سب دل دہلا دینے اعداد و شمار کے باوجود ہم اپنی سڑکوں پر حادثات میں ہونے والی شرح اموات میں کمی کیلئے سنجیدہ نہیں-
ایک ٹریفک پولیس افسر کے مطالعے میں سڑک کے حادثات کے بارے میں ہمارے معاشرے میں قسمت پر دوش دینے کے رویے کی بھی نشاندہی کی گئی ہے- زیادہ تر انٹرویو دینے والے افراد نے ٹریفک حادثات کا ذمہ دار کسی رود سیفٹی اور ٹرانسپورٹ پالیسی کی ناکامی کے بجائے قسمت کو قرار دیا-
تاہم اس سے حکومت اپنی ذمہ داری سے آزاد نہیں ہوتی- ٹریفک سیفٹی کے ایک ماہر کے مطابق، ٹریفک حادثات اور حادثات کے نتیجے میں ہونے والی اموات میں کمی کے پانچ طریقے ہوتے ہیں-
سب سے پہلے تو ایک ایسے ادارے کا قیام ضروری ہے جو اس مسئلہ کے ساتھ جنگی بنیادوں پر نبٹ سکے- ارجنٹینا نے نیشنل روڈ سیفٹی ایجنسی قائم کر کے یہی کیا جس سے نمایاں بہتری دیکھنے میں آئی- کولومبیا بھی اسی نظریے پر عمل پیرا ہے-
دوسری چیز ہے سڑکوں کا بہتر انفراسٹرکچر اور ڈرائیوروں کے لئے بہتر قوانین جن سے سڑکوں پر ہونے والے والی تباہی سے بڑی حد تک بچا جا سکتا ہے- خاص طور پر کناروں پر بننے والے رستے بہت اہمیت رکھتے ہیں-
تیسرے یہ کہ گاڑیوں کی حفاظت اور سلامتی، اس حکمت عملی کا اہم حصہ ہونا چاہئے- اس میں گاڑیوں کی جانچ پڑتال بھی شامل ہے تا کہ یہ یقینی بنایا جا سکے ایک گاری سڑک پر آنے کے قابل ہے بھی یا نہیں- اس کے ساتھ ساتھ گاڑیاں بنانے والے اداروں کی نگرانی بھی ضروری ہے کہ آیا وہ گاڑیاں مطلوبہ حفاظتی معیار کے مطابق بنا رہے ہیں یا نہیں-
چوتھے، ایک مظبوط اور بہتر تعلیمی اور آگاہی بڑھانے کی مہم کا آغاز جس سے محفوظ ڈرائیونگ اور روڈ سیفٹی کے حوالے سے عوام میں شعور میں اضافہ ہو جو کہ ان اقدامات کی معاونت کر سکیں جو ان حادثات میں کمی کیلئے اٹھائے جائیں-
اور سب سے آخر میں حادثات کے بعد ایک میڈیکل مینجمنٹ اسٹریٹجی بنانے کی ضرورت ہے- چونکہ حادثات میں جان لیوا زخم حادثے کے پہلے چند منٹوں میں کاری ثابت ہو سکتے ہیں لہٰذا ابتدائی طبی امداد اور دیگر طبی امداد کی اہمیت مرکزی ہے- یوگنڈا جیسے چند ملکوں میں، نئے ڈرائیونگ لائسنس کا اجراء، ابتدائی طبی امداد فراہم کرنے کی تربیت حاصل کرنے سے مشروط کر دیا گیا ہے- ایک بڑی حکمت عملی کے تحت، حادثات میں ہونے والی اموات میں کمی کیلئے ایسا، ہمارے یہاں بھی کیا جا سکتا ہے-
روڈ سیفٹی، پالیسی کے حوالے سے کبھی بھی پاکستان کی ترجیح نہیں رہا- اس کے باوجود ٹریفک حادثات میں ہونے والی اموات کی خطرناک تعداد، ہمارے بدتر روڈ انفراسٹرکچر اور گاڑیوں کی تعداد میں بے پناہ اضافے نے ہمارے لئے یہ ضروری بنا دیا ہے کہ ہم پالیسی پر نظر ثانی کریں جس کے اثرات نہ صرف متاثرہ افراد کے خاندانوں پر پڑتے ہیں بلکہ اس سے ہمارا صحت کا نظام بھی متاثر ہوتا ہے-
لیکن ان سب سے کہیں زیادہ اہم یہ ہے کہ آبادی کے نوجوان ممبروں کے نقصان کے اثرات ملک کی معاشی ترقی اور پیداواری صلاحیت پر بھی منفی ہوتے ہیں اور صرف یہی وجہ ہمیں جگانے اور اس حوالے سے پالیسی تشکیل دینے کیلئے کافی ہونی چاہئے-
لکھاری اسلام آباد میں مقیم ڈویلوپمنٹ کنسلٹنٹ اور پالیسی انالیسٹ ہیں-
ترجمہ: شعیب بن جمیل