تبدیلی کے ایجنٹ
یہ نئے بھرتی ہونے والے سرکاری ملازمین کی ٹریننگ کا پہلا دن ہے- کوئی وہ ہونہار لڑکا ہے جو ایک دن اپنے گاؤں کا پہلا پولیس افسر بنے گا، کوئی ایسا بیٹا ہے جو ایک قابل سفارتکار بنے گا اور کوئی ایسی بیٹی ہے جس نے اپنے والدین کے سر فخر سے بلند کر دیے ہیں --- ہر کوئی سول سروسز اکیڈمی کے آڈیٹوریم میں جمع ہیں-
ڈائریکٹر، جو ایک سینئر سرکاری ملازم ہیں، ایک طویل افتتاحی تقریر کرتی ہیں، جس کا مرکزی نکتہ آنے والوں کے لئے نیک خواہشات کے اظہار پر رہا- وہ اپنی تقریر کا اختتام آئن سٹائن کے اس مقولے پر کرتی ہیں "ایک کامیاب شخص بننے کی کوشش کرنے کے بجائے ایک ایسا شخص بننے کی کوشش کریں جو اقدار کا آدمی کہلائے"-
مختلف موقعوں پر ترتیب مختلف ہو سکتی ہے، لیکن تمام سرکاری ملازمین کے کیریئر کا آغاز ایسے ہی ہوتا ہے، چاہے وہ ڈاکٹر ہو، انجنیئر، استاد مینیجر- ہو سکتا سب کو نہ ہوتا ہو، لیکن اکثریت کو کیریئر کے اس اہم موڑ پر احساس ہو جاتا ہے کہ جو رستہ انہوں نے چنا ہے، شاید آسان نہ ہو- بہرحال، عوامی خدمت کا جذبہ اور مستقبل میں حکومتی فیصلوں پر اثر انداز ہونے کی آرزو انہیں اس کیریئر کو منتخب کرنے پر وجہ بن جاتے ہیں-
یہ تمام آغاز بہت خوشگوار ہوتے ہیں لیکن کوئی چیز اس جذبے اور ولوے پر غالب آ جاتی ہے- مادیت، بہت زیادہ یا بہت آگے بڑھنے کی چاہت چاہے اسے بیان کرنے کے لئے کوئی بھی اصطلاح استعمال کی جائے، اثر ایک ہی ہے- پرجوش اور عوامی خدمت اور حب الوطنی کے جذبے سے سرشار شخص کی جگہ ایک چڑچڑا اور غیر مطمئن شخص لے لیتا ہے- مزید کامیابیاں حاصل کرنے کی سوچ اسے ان کامیابیوں کا مزہ اور خوشی بھی منانے نہیں دیتی جو اس شخص نے تب تک حاصل کر بھی لی ہوتی ہیں-
اچھی اقدار کا آدمی بننے کے بجائے توجہ کامیاب آدمی بننے پر مرکوز ہو جاتی ہے- ہر کوئی اس کوشش میں لگ جاتا ہے کہ بہتر مراعات، بہتر پوسٹنگ، زیادہ پیسا، زیادہ طاقت، دبئی میں چھٹیاں یا لندن میں گرمیاں گزاری جائیں- ایک چھوٹا سا طبقہ یہ الٹا سیدھا کچھ بھی کر کے یہ سب حاصل بھی کر لیتا ہے اور باقی اسی خواہش اور آرزو میں اس نہ ختم ہونے والے چکر کا حصہ بن جاتے ہیں-
یہ ذہنیت ہمارے سرکاری ملازمین میں آ جاتی ہے، سب میں نہ سہی لیکن پھر بھی اچھے خاصوں میں- وہ سوچ، وہ وژن جو ہمارے سرکاری ملازمین کو اس مقام تک پہنچانے کا سبب بنتا ہے، جو اسے اپنی یونیورسٹی کے باقی ساتھیوں سے ممتاز کرتا ہے دھندلا ہونا شروع ہو جاتا ہے- بہتر پوسٹنگ، ہیرا پھیری، اپنے بیچ کے دوسرے ساتھیوں کے ساتھ موازنہ، اندرونی لڑائیاں اور سیاسی وابستگیوں پر توجہ سے پاکستان پر بہتر انداز میں حکومت کرنے کی خواہش کے ساتھ ساتھ زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں پر بھی اثر انداز ہوتی ہیں-
اس ذہنیت کی وجہ سے ہمارے سرکاری ملازمین سمجھتے ہیں کہ نچلی سطح پر اختیارات کی منتقلی سے پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کی طاقت کم ہو جائے گی- تمام کوششیں سسٹم کو مزید خراب کرنے کے لئے کی جا رہی ہیں بجائے اس کے کہ اسے بہتر کیا جائے، اور حالات جوں کے توں ہیں یعنی ایک مسلسل جمود طاری ہے-
یہی وہ ذہنیت ہے جس کی وجہ سے ایک سرکاری ملازم یہ سمجھتا ہے کہ پی اے ایس میں اس کے تمام ساتھی اس کے بدترین دشمن ہیں کیونکہ وہ اس کی محدود سوچ کے مطابق، پی اے ایس میں سیکریٹریٹ گروپ میں کام کرنے والوں کے حقوق غصب کر لئے جاتے ہیں-
مزید براں، یہی ذہنیت پولیس سروس کے افسران کو خودکش بمبار کو روکنے کے بجائے پنجاب میں ایک نئی انسداد دہشت گردی فورس کا قیام روکنے کے طریقے ڈھونڈنے پر مجبور کرتی ہے کیونکہ یہ فورس وزارت داخلہ کے ماتحت ہو گی جس سے پولیس سروس افسران کی انا کو ٹھیس پہنچے گی-
زیادہ پرانی بات نہیں، جب ریونیو حکام انہی سوچوں میں ڈوبے رہتے تھے کہ کسٹمز اور انکم ٹیکس کو ملا کر ایک انلینڈ ریونیو سروس میں کرنے سے ان کی پروموشن پر کیا اثرات ہوں گے؟ جب کہ ان کی توجہ اس بات پر ہونی چاہئے تھی کہ قومی خزانے کو کیسے انڈر انوائسنگ اور ٹیکس چوری سے پہنچنے والے نقصان کو روکا جائے- ڈاکٹروں کا مطالبہ کہ ان کا سروس اسٹرکچر بھی طاقتور بیوروکریٹوں جیسا ہونا چاہئے اور پوسٹل سروس والوں کا ذاتی کاروبار کرنے پر مجبور ہو جانا اسی ذہنیت کے مرہون منت ہے-
کرپشن تو اس فلسفے کی ضمنی پیداوار ہے -- وہ فلفسہ جو قوم کے بہترین دماغوں کو یہ احساس کرنے سے روکتا ہے کہ یہ سب ایک ایسے پاکستان کے لئے ہے جس پر بہتر حکومت کی جا رہی ہو اور یہ کسی پولیس سروس، پی اے ایس یا کسی دوسرے ڈیپارٹمنٹ کے غلبے کے لئے نہیں-
زندگی میں بہت سے سنگ میل ہوتے ہیں، سرکاری ملزم کا تبدیلی کا ایجنٹ بننا ان میں سے ایک ہے- یہ اس کی زندگی میں مادی طور پر کیسا کردار ادا کرے گا یہ کہنا مشکل ہے- لیکن بائیسویں گریڈ میں ترقی کب ہو گی کا حساب لگانے، کسی بے ایمان سیاست دان کو خوش کرنے کے طریقے سوچنے، بہتر پوسٹنگ وغیرہ جیسی باتوں کے مقابلے میں عوامی خدمت میں سنگ میل عبور کرنے میں کہیں زیادہ افزودگی، خوشی اور سرشاری ہے-
آخر میں، یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ اوپر کہی گئی باتیں سول سروسز میں کسی بھی گروپ کے خلاف یا حق کے لئے نہیں کی گئیں، یہ تو محض ذہنیت کی تبدیلی کی آواز ہیں، پاکستانی سول سروس کے پوٹینشل کو استعمال کرنے کی آواز ہیں- آئن سٹائن نے ایک بار کہا تھا "اپنی زندگی گزارنے کے دو طریقے ہیں، ایک تو یہ کہ کچھ بھی معجزہ نہیں اور دوسرا یہ کہ سب کچھ معجزہ ہی ہے"- اب وقت آ گیا ہے کہ فیصلہ کر لیا جائے کہ کون سا طریقہ پاکستان کے لئے بہترین ہے-
ترجمہ: شعیب بن جمیل