ان کے لئے کوئی آنسو بہانے والا نہیں
"افسوس کی بات یہ ہے کہ ان بدنصیبوں کی موت پر لوگوں کو دکھ بھی نہیں ہوتا"
یہ گزشتہ ہفتے کراچی میں تیرہ پولیس اہلکاروں کی بم دھماکے میں ہلاکت پر میرے ایک عزیز کے تاثرات تھے- مجھے انکی بات سن کر تعجب ہوا، اور چونکہ میرے عزیز مذہبی قسم کے انسان ہیں تو ان پر غصّہ آنا ایک قدرتی بات تھی-
"آپ کے کہنے مطلب یہ ہے کہ طالبان جو کچھ کر رہے ہیں جائز ہے، یعنی آپ طالبان کی طرفداری کر رہے ہیں؟"، میرے لہجے میں احتجاج اور ملامت صاف محسوس ہو رہا تھا-
"نہیں نہیں! میں یہ ہرگز نہیں کہہ رہا کہ انکا قتل جائز ہے، طالبان جو کچھ کر رہے ہیں وہ غلط ہے اور اس کے لئے انہیں ایک دن خدا کو جواب دینا ہوگا- لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر آج ملک اس حال کو پنہچا ہے تو اسکی ذمہ دار بھی ہمارے محافظ ادارے ہیں- اگر انہوں نے قانون کی پاسداری کی ہوتی، خود کو قانون سے بالاتر نہ سمجھتے اور اپنی ڈیوٹی ایمانداری سے نبھاتے تو آج جو کچھ ہو رہا ہے وہ نہ ہوتا"، انہوں نے اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوۓ کہا-
ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ ان کے کارخانے میں کراچی کی سب سے بڑی کچی آبادی اورنگی ٹاؤن سے ورکر آتے ہیں، انکی زبانی پتا چلا ہے کہ جب سے کراچی میں آپریشن کا سلسلہ شروع ہوا ہے پولیس والے آپریشن کے نام پر گھروں میں گھس جاتے ہیں اور وہاں سے جوان لڑکوں کو اٹھا کر لے جاتے ہیں، بعد میں ان لڑکوں کے اہل خانہ سے انکی رہائی کے بدلے رقم کا تقاضہ کیا جاتا ہے- یہ لوگ بہت غریب ہوتے ہیں پھر بھی اپنے جگر کے ٹکڑوں کو بچانے کے لئے جیسے تیسے رقم کا بندوبست کرتے ہیں-
"لیکن تمام پولیس والے تو بدعنوان نہیں ہیں؟"، میں نے ایک اور اعتراض کیا-
"بالکل نہیں ہیں، لیکن ایک بڑی تعداد ضرور ہے، اور آپ نے تو سنا ہی ہوگا ایک مچھلی پورے تالاب کو گندہ کرتی ہے تو یہی حال یہاں بھی ہے، پولیس اہلکاروں کی بدعنوانیاں کوئی آج کی کہانی تو نہیں"، یہ کہہ کر انہوں نے بات ختم کر دی لیکن مجھے انکی بات کسی حد تک درست لگی-
کوئی دس بارہ سال پہلے کی بات ہے ہمارے ایک کلاس فیلو نے اپنے ساتھ ہونے والا ایک واقعہ سنایا تھا- بقرعید سے کوئی ایک ہفتہ پہلے وہ اپنے دوست کے ساتھ موٹر بائیک پر محلے میں جانور دیکھنے نکلا، اس زمانے میں ڈبل سواری پر پابندی عائد تھی- ایک موڑ پر ان لڑکوں کو پولیس موبائل نے روک لیا اور پکڑ کر تھانے لے گئی، بڑی منت سماجت کے بعد ہمارے کلاس فیلو کو اپنے گھر ایک فون کال کرنے کی اجازت دی گئی-
تھوڑی دیر بعد اس کے والد تھانے پنہچے، ایس ایچ او نے لڑکے کی آزادی کے لئے پچاس ہزار کا مطالبہ کیا. بارہ سال پہلے پچاس ہزار ایک بڑی رقم تھی، لڑکے کے والد ایک رٹائرڈ آدمی تھے اس رقم کا بندوبست ان کے لئے آسان کام نہ تھا، بہرحال کچھ اثر و رسوخ استعمال کرنے کے بعد بات دس ہزار پر طے ہوئی- لڑکا گھر آگیا، گھر میں اس کے ساتھ جو سلوک ہوا وہ تو الگ ہی داستان ہے، لیکن یہ ہماری پولیس کی بدعنوانی اور رشوت ستانی کا ایک چھوٹا سا واقعہ ہے- اپنے گرد و پیش نظر دوڑائیں تو ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں جن پر سواۓ خون کے گھونٹ پینے کے کچھ نہیں کیا جاسکتا-
حال آج بھی وہی ہے، ادھر شہر میں کوئی گڑبڑ ہوئی یا ڈبل سواری پر پابندی کا اعلان کیا گیا ادھر جگہ جگہ مخصوص مقامات پر پولیس موبائل 'کمائی' کرنے کھڑی ہوجاتی ہے- آپ ڈی ایچ اے چلے جائیں، وہاں اکثر صبح کے اوقات میں بعض جگہوں پر آپکو پولیس اہلکار کھڑے نظر آئیں گے، جو تنہا کار چلانے والوں سے کاغذات کا مطالبہ کرتے ہیں، کاغذات پورے ہوں یا نہ ہوں، 'چاۓ پانی' کے لئے وصولی ضرور کی جاتی ہے-
یہ صورتحال صرف کراچی کی نہیں، بلکہ ملک کے دیگر علاقوں میں بھی پولیس اہلکار اپنی من مانی کرتے نظر آتے ہیں- بجاۓ اپنے فرض کی ادائیگی کے یہ قانون کے محافظ جاگیرداروں، سیاستدانوں اور مافیا کے مفاد کے لئے کام کرتے ہیں- جن لوگوں کی ذمہ داری عوام کے جان و مال کی حفاظت ہے وہی ان کے گھروں میں نقب لگاتے نظر آتے ہیں-
ماوراۓ عدالت قتل، بنا کسی جرم کے کسی گھر کے افراد کو اٹھا لیجانا یا پولیس کی تحویل میں اموات کی خبریں تو ہمیں عام ملتی رہتی ہیں- یہ سب ان عناصر کی ریشہ دوانیاں ہیں جو قانون نافذ کرنے والے اداروں میں موجود ہیں اور جنہوں نے قانون کے دیگر محافظین کا وقار اور مورال دونوں گرا دیا ہے- کرپشن نے ان اداروں کی جڑوں کو کھوکھلا کر دیا ہے-
قانون کا احترم اور نفاز جن کی ذمہ داری ہے وہی اسکی دھجیاں اڑاتے دکھائی دیتے ہیں، تو پھر یہ کیونکر ممکن ہے کہ لوگ ان کے لئے آنسو بہائیں- آج ملک جن حالات سے گزر رہا ہے اسکی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ قانون کے محافظ (اس میں تمام ادارے شامل ہیں) اپنے فرائض کے ساتھ مخلص نہیں-
آج اگر ملک میں خوف و دہشت کی فضا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ عوام خود کو تنہا محسوس کرتے ہیں، ان کے خیال میں انکی حفاظت کرنے والا کوئی نہیں- قانون نافذ کرنے والے اداروں نے عوام کی نظر میں اپنا وقار اور بھروسہ کھو دیا ہے-
آج قانون کے محافظین کی قربانیوں اور جاں نثاری کے مظاہروں کے باوجود بہت کم لوگ امن کی جنگ میں پولیس والوں کی جدوجہد کو سراہتے نظر آتے ہیں-
پاکستان اسی صورت میں دہشتگردی اور انتہا پسندی کے گرداب سے نکل سکتا ہے جب متعلقہ ادارے ذاتی مفاد سے بالا تر ہوکر ملک کی سالمیت اور تحفظ کے لئے اپنے فرائض بےغرضی سے انجام دیں اور مستقبل میں بھی جان نثاری اور وطن پرستی کا مظاہرہ کرتے رہیں- اس ملک کو فی الوقت سچے خادموں کی ضرورت ہے اور اسکی عوام کو ایسے مخلص اور وطن پرست محافظوں کی جو ان اداروں کے کھوۓ ہوۓ وقار اور بھروسے کو واپس لا سکیں-