میڈیا اور طالبانی فتویٰ؛ 'شرعی' فاشزم؟
نوٹ: یہ مظمون ساؤتھ ایشیا فری میڈیا (سیفما) کے سیمینار منعقدہ 5 فروری 2014 کیلئے لکھا گیا تھا۔
انسانی حقوق کے بین الاقوامی اعلامیے کی شق 19 اور 23 کا ایک پس منظر ہے۔ احترام انسان کا بنیادی تقاضا یہ ہے کہ انسانی دماغ کی صلاحیت کا اداراک بھی کر لیا جاے اور اُس صلاحیت کو استعمال بھی کیا جائے۔
سوچنے کی صلاحیت لازمی طور پر تمام بنی نوع انسان کو حاصل ہے اسلئے کسی بھی حقیقت کا تعیین مختلف زاویوں سے ہوسکتا ہے۔ اسلئے جب تک حقیقت کی مختلف النوّع توجیہات کو نہ مانا جائے اُس وقت تک 'احترام انسان' کا تصّور نا مکمل رہتا ہے۔
انسانی فکر کا حقیقت کو مختلف النّوع زاویوں سے پرکھنے کا ادراک تب ممکن ہے جب اُس فکر کو بیان کرنے کی آزدی ملے۔ یہ ایک سائنسی حقیقت ہے کہ سوچنے اور اظہار کرنے کا ایک دوسرے کے ساتھ براہ راست تعلق ہے۔ اگر آپ بولنے اور بیان کرنے پر پابندی لگائیں تو فکری ساخت خود بخود متاثر ہو ہوگی۔
اظہار اور فکر کی ان حقیقتوں تک پہنچنے کیلئے انسان نے کم از کم دس ہزار سال کا عرصہ صرف کیا ہے۔ حمورابی اور سائرس اعظم کے مجموعہ قوانین سے لیکر بدھا اور محمد صلعم سے ہوتے ہوئے جب ہم بنیادی حقوق کے بین الاقوامی اعلامیے تک پہنچتے ہیں تو یہ حق انسان کے سماجی تہذیبی ارتقاء کے انمٹ نقوش کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔
اس دوران انسان نے جب فظرت کے مظاہر میں تنوع پر انحصار کا مشاہدہ کیا تو حقیقت کے متنوع زاویہ ہائے نظر پر اسکا اعتقاد بڑھتا گیا۔ نتیجتاً انسانی تہذیبی ارتقا میں تکثیریت کا عنصر شامل ہوگیا جو کسی بھی جمہوری رویئے اور جمہوری نظام کیلئے خشت اوّل کی حیثیت رکھتا ہے۔
اس تناظر میں جب ہم میڈیا کے بارے میں انتہا پسندوں کے فتوے کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ کسی بھی فرد اور سماج کو اپنی گرفت میں لانے کیلئے سامراجی اور فاشسٹ قوّتوں نے ہمیشہ دو قسم کے حربے استعمال کئے ہیں ۔
پہلا یہ کہ فرد اور سماج کے اظہار کی صلاحیت کا گلا گھونٹا جائے جسکا لازمی نتیجہ سوچنے اور فکر و ادراک کی صلاحیت ختم ہونے کی شکل میں نکلے گا۔ فکری غلامی ہمیشہ سے سماجی اور سیاسی غلامی کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔
دوسرا حربہ فرد اور سماج کو تنہا کر دینا ہے۔ آج اگر ہم انسانی تہذیب کے بنیادی اقدار سے کٹ جائیں تو ہم انسانی نوع کی اجتماعیت سے کٹ جائیں گے۔ پھر ہم پر جسمانی، سماجی، سیاسی اور اقتصادی غلبہ حاصل کرنا حد درجہ آسان ہو جائیگا اسلیئے تو فیض صاحب کو کہنا پڑا کہ؛
جنکا دیں پیروی کذب و ریا ہے اُنکو
ہمّت کفر ملے، جراَت تحقیق ملے
جنکا سر منتظر تیغ جفا ہے اُنکو
دست قاتل کو جھٹک دینے کی توفیق ملے
انتہا پسند مذہبی فاشسٹ قوّتوں کا اصل مقصد مذہب کے نام پر پاکستانی ریاست اور عوام کو اپنا غلام بنانا ہے۔ ملک کے شمال مغربی حصّے کے اکثر علاقوں میں سماجی کنٹرول حاصل کرنے کے بعد فاشسٹ نیٹ ورک اب مرکزی دھارے کے پاکستانی سماج کو کنٹرول میں لانے کا منصوبہ بنا چکے ہیں۔
اِس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کا آسان راستہ یہ ہے کہ میڈیا اور بالخصوص اُس میڈیا پر پابندی لگائی جائے جو متنوع تصویریں پیش کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے تاکہ صرف وہی تصویر دکھائی جاسکے اور وہی آواز سنائی جائے جو فاشسٹ قوّتیں دکھانا اور سنانا چاہتی ہیں۔
مرکزی دھارے کے پاکستانی سماج اور میڈ یا میں فاشسٹ قوّتوں کے ہمدردوں اور وکالت کرنے والوں کی موجودگی کے باعث انتہا پسند تنظیموں کا فتوٰی ایک کاری ضرب کی حیثیت رکھتا ہے۔
ایک ہی وار میں اُنہوں نے اختلافی آوازوں کو خوف میں بھی مبتلا کر دیا اور دستور پاکستان کے پرخچے بھی اُڑا دیئے۔ وادی سوات اور قبائلی علاقوں میں انتہا پسند گروہو ں کا کامیابی کے ساتھ سماجی کنٹرول حاصل کرنے کا تجربہ اب مرکزی دھارے کے پاکستان پر بھی آزمایاجا رہا ہے۔
پاکستانی میڈیا اور سول سوسائٹی کو 'اب نہیں تو کبھی نہیں' کے اُصول کے تحت ایک متحدہ پلیٹ فارم سے اعتماد اور قوّت کے ساتھ اِس وار کا راستہ روکنا ہوگا ورنہ خطرہ ہے کہ بقول ظفر اقبال
خموش ہوگیا یوں کوئی بات کرتے ہوئے
ہوا سے کچھ نہ کہے جیسے گل بکھرتے ہوئے
Email: [email protected] Twitter: khadimhussain4
تبصرے (5) بند ہیں