• KHI: Zuhr 12:36pm Asr 5:03pm
  • LHR: Zuhr 12:07pm Asr 4:34pm
  • ISB: Zuhr 12:12pm Asr 4:40pm
  • KHI: Zuhr 12:36pm Asr 5:03pm
  • LHR: Zuhr 12:07pm Asr 4:34pm
  • ISB: Zuhr 12:12pm Asr 4:40pm

موصوف کیا بیچتے ہیں؟

شائع February 18, 2014

سال کے آغاز کے ساتھ ہی ملک بھر میں دہشتگردی کی لہر جس تیزی سے پھیلی یہ دیکھ کر ہمارے محترم پرائم منسٹر صاحب نے آخر مسئلے کو حل کرنے کی ٹھان ہی لی، عوام بھی پرامید ہوئی کہ اب ملک دشمن عناصر کی شورشوں کے خلاف کوئی سخت قدم اٹھایا جاۓ گا-

میاں صاحب ایوان میں تشریف لاۓ، عوام دانتوں میں انگلیاں دباۓ بیٹھی ان کے تاریخ ساز فیصلے کی منتظر تھی کہ جھٹ سے منسٹر صاحب نے تحریک طالبان پاکستان کو مذاکرات کی دعوت دے ڈالی، حکومتی کمیٹی کا اعلان بھی ہوگیا-

عوام حیران، زمانہ پریشان یا الہی یہ کیا ماجرا ہوا؟ ہم تو ہمارے قاتلوں کے خلاف سخت کاروائی کے منتظر تھے یہاں تو مذاکرات کیے جا رہے ہیں- سوشل میڈیا میں یہ بحث چل نکلی کے دراصل میاں صاحب، طالبان کے عذر خواہوں کو انکا اصل چہرہ دکھانا چاہتے ہیں اسی لئے مذاکرات کی دعوت دی گئی ہے کیونکہ طالبان تو کبھی مذاکرات کے لئے سنجیدہ ہوتے ہی نہیں، ماضی کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں-

ادھر طالبان نے تیزی دکھائی اور مذاکرات کی پیشکش قبول کرتے ہوۓ اپنی کمیٹی کے لئے پانچ ممبران بھی تجویز کر دیے جن میں ایک پاکستان تحریک انصاف کے لیڈر، عمران خان عرف طالبان خان، جبکہ دوسرے لال مسجد کے سابقہ خطیب عبدالعزیز صاحب عرف برقعے والی سرکار نمایاں تھے-

اپنی نامزدگی کی خبر سنتے ہی خان صاحب تو گگلی مار کر کنارہ کش ہوگئے، ظاہر ہے انہیں 'امن' سے زیادہ اپنا 'سیاسی کیریئر' عزیز ہے- دوسری طرف، ابتداء میں عبدلعزیز صاحب نے موقع غنیمت جانا اور کمیٹی میں شمولیت کی حامی بھر لی-

ادھر مذاکرات کا شوشہ چھوٹا، ادھر میڈیا بھی حرکت میں آگیا، بھانت بھانت کے علماۓ کرام ٹیلی ویژن پر آکر انٹرویوز دینے لگے، جن میں سب سے زیادہ پذیرائی عبدالعزیز صاحب کو ملی، انہیں سنہ دو ہزار سات کے بعد اب جا کر ایک بار پھر لائم لائٹ میں آنے کا موقع ملا تھا-

دوسری جانب ریٹنگ کے بھوکے میڈیا کو بھی چڑھتے سورج کو سلام کرنے کی عادت ہے، چناچہ ہر چینل پر موصوف کا رخ روشن پلاسٹر کر دیا گیا- انٹرویو کیے جا رہے ہیں، مناظرے کرواۓ جا رہے ہیں- غرض ایک منکی بزنس ہے جو اپنے پورے عروج پر ہے-

جناب عبدالعزیز صاحب کی وجہ شہرت لال مسجد سے زیادہ وہاں سے ان کے فرار کی داستان سے ہے- یہ مرد 'مجاہد' لال مسجد آپریشن سے جان بچا کر برقع میں ملبوس، عورتوں کے جلو میں فرار ہوتے ہوۓ پکڑے گۓ تھے-

ان کے پس منظر سے سبھی واقف ہیں- حضور لال مسجد کے وراثتی خطیب تھے. وراثتی کس طرح؟ کیونکہ لال مسجد کے پہلے خطیب ان کے والد جناب محمّد عبداللہ صاحب تھے جن کے جنرل ضیاالحق کے ساتھ قریبی مراسم تھے.

ایک عرصے تک انہیں جنرل صاحب کی سرپرستی حاصل رہی- افغانستان میں روس مخالف بغاوت کے لئے لڑاکے فراہم کرنا انکی ذمہ داریوں میں شامل تھا، انکی وفات (قتل) کے بعد، لال مسجد کا تخت عبدالعزیز صاحب کے حصّے میں آیا- ان کے بعض حمایتیوں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سیاسی جماعتوں کی قیادت موروثی ہوسکتی ہے تو پھر مسجد کی امامت میں کیا قباحت ہے- ہم تو نہیں جانتے ممکن ہے شرع میں ایسا کچھ کہا گیا ہو-

موصوف آج کل زیادہ تر وقت ٹی وی چینلز پہ انٹرویو دیتے دکھائی دیتے ہیں، اپنے مخصوص خطیبانہ انداز کے ساتھ ہاتھوں میں تین سو سال قدیم مذہبی تفاسیر لئے، حضور ہر میزبان کو یہی کہتے سنائی دیتے ہیں کہ وہ پاکستان کا آئین، قران و سنت کے احکامات کے مطابق چاہتے ہیں.

حکومت-طالبان مذاکرات سے علیحدگی کی بھی انہوں نے یہی وجہ بتائی، بقول انکے جب تک ملک میں شریعت کا نفاز نہیں ہوجاتا تب تک وہ مذاکرات میں حصّہ نہیں لیں گے- پاکستانی آئین کو ماننے والوں کو بزرگوار 'کافر' سمجھتے ہیں (یعنی پاکستان کی تمام عوام کافر اور واجب القتل ہے، طالبان بھی تو اسی نکتے پر کام کر رہے ہیں)

اب سوال یہ ہے کہ کس مکتبہ فکر کی شریعت؟ تو قبلہ اپنے اکثر انٹرویوز میں اشارتاً یہ بتا چکے ہیں کہ طالبان اور وہ خود سنی-حنفی ہیں.

لہٰذا وہ دانشور اور تجزیہ نگار جو بارہا یہ سوال کرتے نظر آتے ہیں کہ پاکستان میں اسلام کے کئی اسکولز آف تھاٹ (school of thoughts) موجود ہیں تو پھر طالبان کونسا نظام لانا چاہتے ہیں؟ انکو اب یہ معلوم ہو جانا چاہیے کہ نظام 'طالبانی' ہوگا اور باقی تمام مکتبہ فکر اسلام کو انہی کی 'تقلید' کرنا ہوگی، ورنہ 'انجام ' سے آپ سب واقف ہیں مجھے یہاں اسکی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں-

موصوف پاکستانی آئین کو انگریزوں کا آئین کہتے ہیں اور انکے نزدیک اسلامی نظریاتی کونسل کے ممبران، مذہبی امور میں ماہر نہیں، عصر حاضر میں مذہبی امور و ریاستی قوانین کے لئے وہ ایسی کتابوں کا حوالہ دیتے نظر آتے ہیں جو تین سو، ساڑھے تین سو سال پرانی ہیں-

قبلہ یہ سمجھنے کی بالکل کوشش نہیں کرتے کہ آج کے دور کی جو ضروریات اور پیچیدگیاں ہیں انکا جواب تین سو سال پرانی کتابوں میں نہیں ملے گا، ہمیں موجودہ زمانے کے تقاضے پورے کرنے کے لئے بین الاقوامی قوانین سے مدد لینی ہی پڑے گی-

بہرکیف جب ان سے سوال کیا گیا کہ جناب اگر آئین پاکستان اسلامی نہیں کافرانہ ہے تو بتائیں اس حوالے سے آپ کی کیا تجاویز ہیں، گڑبڑ کہاں ہے اور کیا تبدیلیاں اس میں لائی جانی چاہییں؟

اس بات کا جواب ان کے پاس نہیں ہوتا کیونکہ ایسا کوئی بھی دعویٰ کرنے کے لئے ایک عدد ریسرچ ضرورت ہوتی ہے-

اسی طرح ایک انٹرویو میں میزبان نے ان سے سوال کیا کہ کیا آپ ماضی کی خلافتوں یا بادشاہتوں میں سے کسی ایک نظام کی مثال دے سکتے ہیں جہاں پوری طرح سے شریعت نافذ ہو کیونکہ ان ریاستوں کے حکمران تو خود عورتیں لا کر اپنے حرم میں رکھتے اور انکے ساتھ بغیر نکاح کے تعلقات رکھتے تھے، تو جواب میں قبلہ نے اس سوال کی اہمیت کو رد کردیا بقول ان کے اگر حکمران شریعت نافذ کر دیتا ہے تو وہ ٹھیک ہے یعنی حکمران ایک غیرشرعی زندگی گزارے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، کمال ہے صاحب!

قبلہ اکثر طالبان کے ایجنڈے پر گفتگو کرتے نظر آتے ہیں، اور انکی باتوں سے صاف ظاہر ہے کہ وہ طالبان کی طرف سے دہشت گردی اور قتل غارتگری کو جائز سمجھتے ہیں. اسکا اندازہ آپ اس بات سے لگا لیں کہ جب نیوز ون کے پروگرام آخر کیوں کی میزبان نے ان سے پوچھا، "مولانا کیا خودکش حملے شرعاً جائز ہیں؟" تو مولانا اس کا جواب ہی گول کر گۓ، میزبان کے بار بار اصرار پر بھی انہوں نے کوئی واضح جواب نہ دیا-

اسی پروگرام میں جب میزبان نے انکی پریس کانفرنس میں ان کے پیچھے موجود اسلحہ بردار افراد کے بارے میں دریافت کیا تو انکا کہنا تھا کہ وہ پولیس والے تھے، پھر تھوڑی ہی دیر بعد یہ کہتے سنائی دیے کہ یہ انکے کسی 'دوست' کی طرف سے دیے گۓ گارڈز تھے- حالانکہ جو لوگ سنہ دو ہزار سات میں، لال مسجد کے واقعہ سے واقف ہیں، بخوبی جانتے ہیں کہ عبدالعزیز صاحب اکثر اسلحہ برداروں کے جلو میں بیٹھے نظر آتے تھے، یہ انکا پرانا شوق تھا جو آج بھی موجود ہے-

ٹھیک اسی طرح انہیں بلند و بانگ دعووں کا بھی شوق ہے- طالبان کے بارے میں حضرت کا کہنا ہے کہ انسان کو جب حقوق نہیں ملتے تو وہ ہتھیار اٹھا لیتا ہے، یہ ایک قدرتی بات ہے (اس لحاظ سے تو ملک کے تمام خواجہ سراؤں کو بارودی جیکٹیں پہن لینی چاہییں کیونکہ سب سے زیادہ حقوق تو انہی بیچاروں کے مارے جاتے ہیں)-

ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ تحریک طالبان پاکستان کے پاس اس وقت چار سو سے پانچ سو زنانہ خودکش حملہ آور موجود ہیں جو مذاکرات ناکام ہونے کی صورت میں استعمال کیے جائیں گے نیز یہ کہ ماضی میں بھی زنانہ خودکش حملہ آوروں کا استعمال کیا گیا ہے.

بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق مولانا مبالغہ آمیزی سے کام لے رہے ہیں یہ ممکن بھی ہے کیونکہ موصوف نے سنہ دو ہزار سات میں بھی ایسا ہی دعویٰ کیا تھا کہ لال مسجد میں اس وقت دس ہزار خودکش حملہ آور موجود ہیں، موجود تھے یا نہیں یہ تو الله اور عبدالعزیز صاحب ہی بہتر جانتے ہیں لیکن ہاں یہ ضرور سچ ہے کہ طالبان اپنے مذموم ارادوں کی تکمیل کے لئے خواتین کو استعمال کرنے یا عورتوں، بچوں اور بزرگوں کا قتل عام کرنے سے دریغ نہیں کرتے. گزشتہ کئی سالوں میں ہونے والے دہشتگردی کے واقعات ہمارے سامنے ہیں، پشاور چرچ، سردار بہادر خان یونیورسٹی کی طالبات پر حملہ، ہزارہ زائرین پر حملے ان میں سے چند حالیہ مثالیں ہیں-

عبدالعزیز صاحب کے مطابق طالبان کو مذاکرات نمٹانے کی جلدی نہیں ہے- انکو ہوگی بھی نہیں، ابھی تو انہوں نے خوف و دہشت کا کھیل کھیلتے رہنا ہے، ٹھیک اسی طرح جیسے بلی اپنے شکار سے کھیلتی ہے، یہ ہتھکنڈا ریاست پر دباؤ ڈالنے کے لئے ہے تاکہ حکومت جلد از جلد امن قائم کرنے کے لئے شرطیں تسلیم کرلے-

یہی وجہ ہے کہ مذاکرات شروع ہوجانے کے باوجود اب تک ملک بھر میں جابجا بم دھماکے اور خودکش حملے مسلسل ہو رہے ہیں، انسانی جانوں کا زیاں مستقل ہو رہا ہے- لیکن عبدالعزیز صاحب کے نزدیک یہ سب جائز ہے انہوں نے ایک بار بھی ان حملوں کی مذمت نہیں کی-

عبدالعزیز صاحب کے جتنے انٹرویو دیکھے ان سے صرف ایک ہی بات سمجھ آتی ہے، وہ یہ کہ موصوف طالبان کے فلسفہ تشدد و دہشتگردی کو جائز سمجھتے ہیں (وہ خود بھی اس پر عمل کرتے رہے ہیں)، انسانی جانوں کا زیاں ان کے نزدیک حلال ہے، ان کے خیال میں حکمران کا پابند شریعت ہونا ضروری نہیں، پاکستان کا قانون اور آئین غیر اسلامی، کافرانہ ہے لیکن اسی کی مدد سے موصوف نے آزادی حاصل کی، اسلامی نظریاتی کونسل کے ارکان، نااہل ہیں انکو نہ عربی آتی ہے نہ انگلش-

مذہبی ہو یا سیاسی کسی بھی سوال کا موصوف کے پاس واضح جواب نہیں- یہ خود نہیں جانتے کہ پاکستانی آئین میں کن تبدیلیوں کی ضرورت ہے اور اسے عصر حاضر کی ضروریات کے مطابق کس طرح ڈھالا جاۓ-

خود پسندی کا یہ حال ہے کہ ان کے نزدیک سواۓ انکی اپنی ذات کے کوئی اور شخص مذہبی امور کا ماہر نہیں، نا ہی یہ کسی اور مکتبہ فکر کو تسلیم کرتے ہیں-

کیا عوام کسی ایسے شخص سے، جو پاکستانی عوام کی اکثریت کو سرے سے مسلمان ہی نہیں مانتا، یہ امید رکھ سکتی ہے کہ پاکستان کو صحیح سمت میں لے جاۓ گا؟ کیا ہم ایسے لوگوں سے امن کی امید رکھ سکتے ہیں جنہیں ہزاروں جانوں کے زیاں اور سینکڑوں خاندانوں کی بربادی کا افسوس تو دور کی بات، احساس تک نہیں؟

ناہید اسرار

ناہید اسرار فری لانس رائیٹر ہیں۔ انہیں حالات حاضرہ پر اظہارخیال کا شوق ہے، اور اس کے لیے کی بورڈ کا استعمال بہتر سمجھتی ہیں- وہ ٹوئٹر پر deehanrarsi@ کے نام سے لکھتی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تبصرے (6) بند ہیں

Hyder Feb 19, 2014 02:01am
یہ قاتلوں کا گرو اکثر فخریہ انداز میں پاکستانی عدالتوں سے اپنی گلو خلاصی کی کتھا سناتا نظر آتا ہے. کوئی اس سے نہیں پوچھتا کہ غیر شرعی سسٹم کی عدالتوں سے بری ہو کر کیا تیر مار لیا ؟ کیا اسکو زیب دیتا ہے کہ اپنی صفائی میں کافرانہ آئین کی ماتحت عدلیہ کی دہائی دے ؟؟ یعنی کہ میٹھا میٹھا ھپ ھپ کڑوا کڑوا تھو تھو !!
Kamran Feb 19, 2014 03:49am
Well Said ! this maulana is retarded and can't even carry out a decent conversation... just listen to him carefully next time.
Toofan Feb 20, 2014 03:59am
Yeh aadmi jitna Islam se door hai, koi bhee nahin. Aise log Islam ko mazaq bana ke logon ko bewaqoof banate hain aur gharibon ko khudkush hamla awar banate hain aur phir masoomon ke maarne ke lye bechte hain. Masjid, jahan pe Rasool (SAW) ne ek aadmi ko apne teer bahar rekhne ko kaha ta ke koi zakhmi na ho jaaye, wahan yeh log aslehe aur bombein anbar karte hain. Aise log insaaniyat se door aur darindagi ke bahut qareeb hain.
Read All Comments

کارٹون

کارٹون : 30 مارچ 2025
کارٹون : 29 مارچ 2025