اصولی موقف: فائدہ یا نقصان؟
بگ تھری کی منظوری، ذکا اشرف کی معطلی اور نجم سیٹھی کی واپسی، معین خان کی حیرت انگیز طور پر کوچ کے منصب پر تعیناتی، یہ سب کچھ زیادہ نہیں صرف ایک سے ڈیڑھ ہفتے میں ہوا لیکن ایڈہاک ازم کے لاگو ہونے سے ملکی کرکٹ کا مستقبل شدید خطرات سے دوچار ہو گیا ہے۔
ذکا اشرف نے بگ تھری پر جو موقف اپنایا اس پر کم از کم قوم تو ان سے مطمئن ہے لیکن فیصلے کی منظوری کے بعد جس انداز میں سابق کرکٹرز خصوصاً رمیز راجہ اپنی تنقید کی بندوقیں ان پر تان کر کھڑے ہوئے، وہ قابل مذمت تھا۔
پھر چند ہی دن بعد پیٹرن ان چیف وزیر اعظم نواز شریف نے ذکا اشرف کو ہٹا کر مبینہ طور پر 'پنکچر لگانے' والے نجم سیٹھی کو کرکٹ کی باگ ڈور سونپ دی جس سے پاکستان کرکٹ کی گاڑی مستقل طور پر پنکچر ہونے کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔
حکومت نے ذکا کو ہٹانے کی وجوہات بتاتے ہوئے کہا کہ انہوں نے آئی سی سی کی میٹنگ میں پاکستان کی درست انداز میں نمائندگی نہیں کی لیکن شاید حکام یہ بات بھول گئے کہ اجلاس میں جانے سے قبل ذکا نے وزیر اعظم سے ملاقات کے لیے متعدد درخواستیں دیں اور تحریری طور پر بھی ملنے کی عرضی دی تھی۔
صاحب جب آپ نے ملنا ہی گوارا نہ کیا تو پھر شکایت کیسی، کیا آپ نے مل کر بتایا کہ انہیں کس انداز میں پاکستان کی نمائندگی کرنی چاہیے تھی، رہی بات مالی معاملات کی تو اگر ایسا تھا تو آپ نے سپریم کورٹ سے درخواست واپس کیوں لی اور یہ باتیں بطور ثبوت پیش کیوں نہ کیں۔
یہاں سوال بھی ہے کہ آخر نجم سیٹھی کو ہی کیوں چیئرمین کا منصب سونپا گیا، کیا ان کے سوا کوئی اور قابل فرد آپ کی نظر میں نہ تھا؟۔

پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق چیئرمین عارف عباسی نے بگ تھری میں پاکستان کی جانب سے ووٹ نہ دینے کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ پاکستان کرکٹ کے یہ لیے انتہائی بہتر اقدام ثابت ہوگا اور دنیا کی نظر میں ہماری قدر و منزلت میں مزید اضافہ ہو گا۔
ڈان ڈاٹ کام سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا 'پاکستان کی حالیہ پوزیشن بہت اچھی ہے، یہ منصوبہ زیادہ دیر تک قابل عمل نہیں رہے گا، کرکٹ میں واپسی سے اب تک پاکستان کا کرکٹ میں کردار بہت نمایاں رہا ہے اور اسے کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا'۔
سابق چیئرمین پی سی بی نے حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ جن لوگوں نے محض اس بات کو بنیاد بنا کر ذکا کو برطرف کیا انہیں خود کرکٹ یا کرکٹ کی سیاست کا علم نہیں۔
عباسی نے مزید کہا کہ پاکستان کے پاس بگ تھری کی مخالفت کے سوا کوئی راستہ نہ تھا خصوصاً آئی پی ایل کرپشن کیس میں جسٹس مدگل کی رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد پاکستان کا مقدمہ مزید مضبوط ہو گیا کیونکہ یاد رکھیں یہ تحقیقات کسی اور نے نہیں بلکہ ہندوستانی سپریم کورٹ نے کی ہیں۔
'آئی سی سی کا فیصلہ انتہائی احمقانہ ہے اور اسے اس پر غور کرنا چاہیے، اگر کرکٹ کے مالی معاملات وہ لوگ دیکھیں جو خود کرپشن سے منسلک ہیں تو پھر ہم کیا کہہ سکتے ہیں، لہٰذا میں نہیں سمجھتا کہ عالمی سطح پر پاکستان کا موقف کمزور ہوا ہے'۔
انہوں نے اس فیصلے کو وقتی قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کرکٹ میں بہتری کے ساتھ ہی دنیائے کرکٹ سوچنے پر مجبور ہو جائے گی۔
عارف عباسی نے پاکستان کرکٹ کو سیاست سے پاک کرنے پر زور اور ایڈہاک ازم کی واپسی کو ملکی کرکٹ کے لیے نقصان دہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ پاکستان کرکٹ پر پابندی کا سبب بن سکتا ہے۔
یاد رہے کہ آئی سی سی نے گزشتہ سال تمام کرکٹ بورڈز کو اپنے کرکٹ معاملات کو سیاست سے پاک کرنے کا حکم دیتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں ان کی کرکٹ پر پابندی عائد کر دی جائے گی۔
'تمام بورڈز کمپنیز ہیں اور آئی سی سی خود بھی ایک کمپنی ہے لہٰذا ہمیں کچھ قوانین کی پاسداری کرنی ہوتی ہے، ایڈ ہاک ازم کا مطلب ہے کہ کوئی قانون نہیں اور یہ وقتی طور پر ہوتا ہے، ہمارے ہاں یہ پندرہ سال سے چلا آرہا ہے، کون سی ڈکشنری میں جز وقتی دور پندرہ سال کے لیے ہوتا ہے، آئی سی سی ہمیں پہلے ہی دو تین بار وارننگ دے چکا ہے لیکن یہاں بورڈ میں حکومتی مداخلت جاری ہے'۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان کرکٹ بورڈ کو سیاست اور حکومتی مداخلت سے پاک کر دیا جائے تو وہ چیئرمین پی سی بی کا منصب سنبھالنے کو تیار ہیں۔
عارف عباسی نے آئی پی ایل میں حالیہ انکشافات پر ہندوستانی بورڈ کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے آئی پی ایل کرپشن کا گڑھ ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ دنوں ہندوستانی سپریم کورٹ کے سابق جج پر مشتمل تحقیقاتی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ بکیز نے دوران تفتیش ہندوستانی کپتان مہندرا سنگھ دھونی اور سریش رئنا سمیت انڈین ٹیم کے 6 کھلاڑیوں کے بیٹنگ میں ملوث ہونے کا انکشاف کیا تھا اور اس حوالے سے وڈیو ریکارڈنگ بھی موجود ہیں۔
دھونی اور رائنا آئی پی ایل میں چنئی سپر کنگز کی نمائندگی کرتے ہیں اور اس ٹیم کے مالک اور ہندوستانی کرکٹ بورڈ کے صدر این سری نواسن کے داماد پر کرپشن اور بیٹنگ میں ملوث ہونے کا جرم ثابت ہو چکا ہے۔
سابق چیئرمین پی سی بی نے کہا کہ 'میں 1996 سے کہہ رہا ہوں کہ انڈین بورڈ میں بکیز کا راج ہے، اسے مجرم اور بکیز چلا رہے ہیں، انڈین پریمیئر لیگ میں یوراج جیسے کھلاڑی کو 14 کروڑ میں خریدا جا رہا ہے جبکہ آسٹریلین کھلاڑیوں کو 6 کروڑ میں، کرس گیل ویسٹ انڈیز کی طرف سے کھیلتے ہیں تو 30 رنز سے زیادہ نہیں بنتے لیکن آئی پی ایل میں ریکارڈ پر ریکارڈ بنا رہے ہیں، یہ سب سمجھ سے باہر ہے، کیا یہ فکسنگ نہیں؟'۔
عارف عباسی نے کہا کہ آئی سی سی کو اس سلسلے میں فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اگر یہی صورتحال جاری رہی تو جلد تمام کرکٹ بورڈ بغاوت پر اتر آئیں گے۔
تبصرے (3) بند ہیں