ڈیڑھ عشقیہ -- ریویو
"ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ، دیتے ہیں دھوکہ یہ بازیگر کھلا"
اگر ڈائریکٹر ابھیشک چاؤبے اور رائیٹر وشال بھاردواج کی نئی سنسنی خیز اور مزاحیہ پیشکش 'ڈیڑھ عشقیہ' کے پس منظر میں دیکھا جاۓ تو یہ کہاوت غلط نہیں-
اپنی پہلی فلم 'عشقیہ' میں ایک دیہاتی عورت، کرشنا (ودیا بالن) کے ہاتھوں جھوٹی محبّت کا فریب کھانے کے باوجود افتخار عرف خالو (نصیر الدین شاہ) اور ببّن (ارشد وارثی) ایک بار پھر بیوقوف بن گۓ، لیکن اس بار یہ دھوکہ تھوڑا کلاسیکل نوابی سٹائل میں تھا-
فلم کے آغاز میں ببّن اپنے گینگسٹر باس مشتاق بھائی (سلمان شاہد) کو دو طوطوں اور ایک طوطی کی کہانی سنا کر خوش کرنے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے کیوں کہ خالو جان ایک ڈکیتی کے دوران دغا دے جاتے ہیں اور اب ببّن کی جان مشتاق بھائی کے رحم و کرم پر ہے-
حسب معمول مشتاق بھائی بڑی منت سماجت اور پھر بلیک میلنگ کے بعد ببّن کو مجبوراً اس شرط پر جانے دیتے ہیں کہ وہ خالو جان کو ڈھونڈ کر لاۓ گا- کئی مہینوں کے بعد ببن کو چلتا ہے کہ خالو جان تو اتر پردیش کے ایک قصبے محمود آباد میں ہیں، اور وہاں نواب محمود آباد کی بیوہ، بیگم پارہ (مادھوری ڈکشٹ نینی) کے سوئمبر میں بطور شاعر مقابلے کے لئے پہنچے ہوئے ہیں-

ببّن بھی خالو کے پیچھے محودآباد پہنچ جاتا ہے جہاں اسے پتہ چلتا ہے کہ بیگم پارہ، خالو جان کی گم گشتہ محبّت ہیں جنکو پانے کے لئے خالو شاعر بن گۓ ہیں-

حویلی میں ببّن کی ملاقات بیگم پارہ کی پراسرار ساتھی اور اسسٹنٹ منیہ (ہما قریشی) سے ہوتی ہے اور ببّن میاں حسب معمول جھٹ سے عاشق ہوجاتے ہیں- یوں خالو، بھانجہ عشق کی سات منزلیں (دلکشی، انس، محبت، عقیدت، عبادت اور جنون) یکے بعد دیگرے پار کرتے چلے جاتے ہیں-

خالو جان کو جان محمد (وجے راز) کی شکل میں رقیب کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن انہیں اپنی محبّت پر پورا بھروسہ ہے- دوسری طرف منیہ، ببن کے ساتھ مل کر بیگم پارہ کے اغوا کا پلان بناتی ہے، دونوں اس میں کامیاب بھی ہوجاتے ہیں لیکن آگے جا کر پتا چلتا ہے کہ چکّر کچھ اور ہی ہے-
'ڈیڑھ عشقیہ' سنہ دو ہزار دس کی ہٹ فلم 'عشقیہ' کا سیکوئل ہے- فلم کی کہانی سادہ مگر نہایت دلچسپ ہے- تمام اداکار اپنے کردار سے انصاف کرتے نظر آتے ہیں-
فلم کو تین کیٹگریوں میں رکھا جا سکتا ہے:
رومانس، مزاح، اور تھریلراور تینوں کیٹگریز میں فلم بہترین ہے-
نصیر الدین شاہ، مادھوری ڈکشٹ اور ارشد وارثی جیسے منجھے ہوے اداکار اپنے کرداروں میں نگینے کی طرح فٹ نظر آتے ہیں- فلم کے ڈائریکٹر ابھیشک گو کہ ڈائریکشن میں نۓ ہیں لیکن اپنے کام پر مکمل گرفت رکھتے ہیں-
بطور خالو-بھانجہ، نصیر الدین شاہ اور ارشد وارثی کے بیچ زبردست کیمسٹری ہے لیکن ارشد وارثی کو اب غنڈے/اٹھائی گیروں کے کردار سے باہر نکلنا چاہیے، ان پر اس کردار کی چھاپ لگتی جا رہی ہے- فلم کے ولن وجے راز اپنی جگہ بہترین رہے-
مادھوری ہمیشہ کی طرح خوبصورت اور شاندار رہیں، نوابی تمکنت ان پر خوب جچتی ہے، ان کے مداحوں کو فلم میں انکا خوبصورت رقص بھی دیکھنے کو ملا-
ہما قریشی نے ایک تیز طرار، مرد مار لڑکی کا کردار عمدگی سے نبھایا ہے- اس سے پہلے اس کردار کی پیشکش کنگنا رنوٹ کو کی گئی تھی لیکن اپنی مصروفیت کی بنا پر ان کے لئے وقت نکالنا مشکل ہو گیا، چناچہ یہ کردار ہما قریشی کے حصّے میں آیا-

بیگم پارہ اور منیہ کے درمیان رشتہ تھوڑا متنازعہ دکھایا گیا ہے، فلم کے ڈائریکٹر ابھیشک کے مطابق کہانی کو مختلف رنگ دینے کے لئے ان کے درمیان تعلق کو متنازعہ بنایا گیا- اس کے لئے مبہم اشارے دیے گۓ ہیں جنہیں اگر نظر انداز بھی کر دیا جاۓ تو کہانی کی روانی پر کوئی اثر نہیں پڑتا، لیکن دیکھنے والے بھی قیامت کی نظر رکھتے ہیں، ایک جھلک میں بھانپ جائیں گے کہ اس رشتے میں کچھ گڑبڑ ضرور ہے- بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ بیگم پارہ اور منیہ کے درمیان تعلق، عصمت چغتائی کی کہانی 'لحاف' سے متاثر ہو کر بنایا گیا ہے-
فلم میں شائستہ اردو اور بھوپالی لہجے میں عام ہندوستانی زبان استعمال کی گئی ہے- وشال بھاردواج کے ڈائلاگز میں کہیں جھول نظر نہیں آتا- سنیما ٹو گرافی، فلم کی تھیم کی طرح شاہانہ ہے. آج کے ماڈرن دور میں قدیم ہندوستان جیسا ماحول، کاسٹیوم، موسیقی، آرٹ، شاعری تمام چیزیں فلم کے موڈ کے مطابق ہیں-
فلم کے پروڈیوسر، ڈائلاگ رائٹر اور موسیقار وشال بھاردواج ہیں- کہانی، داراب فاروقی کی ہے جبکہ گیت نگار گلزار ہیں- گلوکاروں میں راحت فتح علی خان اور ریکھا بھاردواج نمایاں ہیں-