• KHI: Fajr 5:06am Sunrise 6:23am
  • LHR: Fajr 4:28am Sunrise 5:50am
  • ISB: Fajr 4:29am Sunrise 5:54am
  • KHI: Fajr 5:06am Sunrise 6:23am
  • LHR: Fajr 4:28am Sunrise 5:50am
  • ISB: Fajr 4:29am Sunrise 5:54am

کوئی جواب ہے ان سوالوں کا؟

شائع February 12, 2014

ہم وہ قوم ہیں جو جانبازوں، شہیدوں اور غازیوں کی داستانیں سن سن کر بڑے ہوۓ، جہادی خون ہماری رگوں میں دوڑتا ہے- ہماری درسی کتابیں ان مردان مومنین کے واقعات سے بھری پڑی ہیں، جو عقل و دانش، جواں مردی، انصاف اور حسن اخلاق کا نمونہ تھے ( کم از کم ہمارے مورخین تو یہی بتاتے ہیں)-

اپنے اجداد کے کارنامے سنتے سنتے ہم یہ فرض کر بیٹھے کہ مسلمانوں سے زیادہ سچی، انصاف پسند اور بہادر قوم کوئی اور ہو ہی نہیں سکتی- ہمارے نزدیک وہی اسلام کا 'سچا' خدمتگار اور جنت کا 'حقدار' ہے جو ایک ہاتھ میں تلوار (بعض حالات میں خودکش بیلٹ باندھے) اور دوسرے میں مذہب کی مشعل لئے، گھوڑے پر سوار (جدید دور کے تقاضوں کے مطابق فور وھیلر پر سوار)، نعرے لگاتا پاک سرزمین کو کافروں اور ملحدوں سے پاک کرنے نکل پڑتا ہے-

اسلام کے ان 'عظیم' سپوتوں کی شبیہہ ہمارے ذہنوں میں اتنی گہرائی تک اتر گئی ہے کہ ہم نے اپنے ان سپوتوں اور بیٹیوں کو یکسر نظر انداز کر دیا جنہوں نے اس ملک کی سالمیت اور اسے انتہا پسندوں کے شکنجے سے آزاد کرانے کے لئے اپنی جانیں قربان کر دیں یا آج جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں-

گزشتہ دنوں ہمارے محترم وزیر اعظم صاحب نے پاکستان کو مزید 'تباہی' سے بچانے کے لئے طالبان سے ایک بار پھر مذاکرات کا فیصلہ کیا اور جھٹ سے ایک چار رکنی کمیٹی بنا کر سب کو حیران کر دیا-

ادھر طالبان نے بھی خود کو قابل بھروسہ ثابت کرنے کے لئے مذاکرات کی حامی بھر لی، مزید یہ کہ مذاکرات کے نام پر اپنے پندرہ نکاتی مطالبات بھی پیش کر دیے-

ان مطالبات کو پڑھ کر ذہن میں جو سوالات ابھرے، پیش خدمت ہیں؛

پاکستان پچھلے کئی سالوں سے مذہب کے نام پر براہ راست اور بلاواسطہ دہشتگردی کی لپیٹ میں رہا ہے- دہشت کی اس فضا نے ناصرف پاکستان کی سیاسی و اقتصادی سالمیت کو نقصان پنہچایا بلکہ پاکستان کو دنیا بھر میں ایک دہشتگرد ریاست کی نظر سے دیکھا جانے لگا-

ایسے تاریک لمحات میں ہمت و شجاعت، ثابت قدمی اور تدبر کی چھوٹی چھوٹی کرنیں ابھرتی رہیں جنہوں نے پاکستانی عوام کی امید برقرار رکھی. ہمارے ان چاہے ہیروز ناسازگار حالات میں بھی اپنے حوصلے بلند رکھنے کی مثالیں پیش کرتے رہے-

چودھری اسلم ، صفوت غیور، اعتزاز حسین، ملالئے یوسفزئی اور ایسے بیشمار روشنی کے مینار ہیں جو پاکستانی عوام کے حقوق کی پاسداری کے لئے سینہ سپر رہے اور ناقابل تلافی نقصانات اٹھانے کے باوجود انہوں نے حوصلے نہ ہارے-

اب سوال یہ ہے کہ اگر طالبان کے ساتھ مذاکرات میں حکومت انکی شرایط مان لیتی ہے تو کیا آنے والے کل میں پاکستان کے یہ سپوت اور بیٹیاں پاکستانی تاریخ کا حصّہ بنائی جائیں گے؟ یا انکی قربانیاں ماضی کے اوراق میں ایک بھولی بسری یاد بن کر رہ جائیں گی- کیا ہم اپنی آنے والی نسلوں کو ان پاکستانی ہیروز کی مثالیں دیں گے؟

ملالئے یوسفزئی کی کتاب، 'آئی ایم ملالہ' کے ساتھ پاکستانی تعلیمی اداروں میں جو سلوک کیا گیا، اس سے تو صاف ظاہر ہے کہ پاکستان کی تاریخ کبھی حق، انصاف اور علم کے علمبرداروں کی قربانیوں کو تسلیم نہیں کرے گی-

چلیں تھوڑی دیر کو عذر خواہوں کی نظر سے دیکھتے ہیں، فرض کرلیتے ہیں کہ چودھری اسلم ایک متنازعہ افسر تھے، ان کا طرز عمل بہت سوں کو ناپسند تھا. صفوت غیور کے قدم پہلے ہی ایک موذی مرض کے ہاتھوں قبر کی طرف بڑھ رہے تھے. ملالئے ایک ڈرامہ کوئین ہے جسے مغرب اپنے مفادات کے لئے استعمال کر رہا ہے اور اعتزاز حسین ایک مورکھ تھا، خود کو انڈین فلموں کا ہیرو سمجھ بیٹھا جو چار گولیاں کھا کر بھی آخری دم تک ڈائلاگ بولتا رہتا ہے یا شاید وہ اپنے تعلیمی معمول سے بیزار تھا اور ایک 'لمبی چھٹی' پر جانا چاہتا تھا- ظاہر ہے ایسے لوگوں کی قربانیوں کو کون تسلیم کرے گا، کوئی نہیں-

لیکن ان پچاس ہزار سے زائد معصوم جانوں کا کیا جو دہشتگردی کا شکار ہوگئے؟ جن کے پیارے انکے جسموں کے ٹکڑے سمیٹتے رہ گئے اور بعض کو تو وہ بھی نصیب نہ ہوۓ-

یاد رکھیں جب کوئی مرتا ہے تو یہ فقط ایک فرد کی موت نہیں ہوتی یہ پورے خاندان کی موت ہوتی ہے- آج مذاکرات کا شگوفہ چھوٹتے ہی میڈیا جس انداز میں ان قاتلوں کی پذیرائی کر رہا ہے، ہر چینل پر شریعت کے ٹھیکیدار جس طرح لن ترانیوں میں مصروف ہیں، اسے دیکھ کر مرنے والوں کے پیاروں کے دلوں پر کیا گزرتی ہوگی؟

جب لال مسجد فیم عبدالعزیز، ٹی وی چینلز پر آکر یہ فرماتے ہیں کہ نفاز شریعت کے لیے پچاس ساٹھ ہزار جانوں کا زیاں کوئی معنی نہیں رکھتا تو ان بیکسوں پر کیا گزرتی ہوگی؟ کیا انکا دل نہیں کرتا ہوگا کہ ایسے لوگوں کا منہ نوچ لیں جنہوں نے انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ ماوراۓ اسلام قتل کو جائز قرار دے رہے ہیں- طالبان اپنے پندرہ نکاتی مطالبات میں انسانیت کے ان قاتلوں کی رہائی چاہتے ہیں-

دوسرا سوال یہ کہ کیا ریاست اس ماوراۓ اسلام و قانون غارت گری کو یکسر نظر انداز کر دے گی؟ کیا ہزاروں بیگناہوں اور مظلوموں کا خون رائیگاں جاۓ گا؟

طالبان اور ان کے حمایتی پاکستان میں شریعت کا نفاز چاہتے ہیں، پاکستان کے اسلامی آئین میں موجود مغربی قوانین کے پیوند ہٹانا چاہتے ہیں، انصاف چاہتے ہیں، شرعی عدالتوں کا قیام چاہتے ہیں، یقیناً یہ ایک قابل تحسین مطالبہ ہے، شک و شبہے سے پاک، ایک آئیڈیل ریاست کا مطالبہ جہاں اسلامی اصولوں کے مطابق عدل و انصاف، مساوات اور رواداری کو ملحوظ رکھا جاۓ گا-

اور اب تیسرا اور آخری سوال، کیا طالبان اور انکی ذیلی تنظیمیں جو انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ اپنے جرائم کی ذمہ داری قبول کرتے آۓ ہیں، 'شریعت' کے نفاز کے بعد، اسلامی نظام عدل و انصاف کے تحت اپنے گناہوں کی سزا بھگتنے کے لئے تیار ہونگے؟

کیا وہ ہتھیار پھینک کر خود کو 'اسلامی' قانون کے حوالے کریں گے تاکہ ایک مثالی اسلامی نظام عدل ممکن بنایا جا سکے؟

ناہید اسرار

ناہید اسرار فری لانس رائیٹر ہیں۔ انہیں حالات حاضرہ پر اظہارخیال کا شوق ہے، اور اس کے لیے کی بورڈ کا استعمال بہتر سمجھتی ہیں- وہ ٹوئٹر پر deehanrarsi@ کے نام سے لکھتی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تبصرے (2) بند ہیں

Name Feb 12, 2014 08:15pm
Taleban walo ny islam ko badnam kaya islam ake amoun pusand muzhub tha muger talban ny isko dahsht gird muzhub ka nam daya
Riaz Khan Feb 13, 2014 06:47am
پنجاب کے سرمایہ داروں اور طالبان کے درمیان ایک قدر مشترک ہے... ان دونوں کو دولت اور اقتدار درکار ہیں اور یہ دونوں ہی حقیقت پسند بھی ہیں۔ طالبان نے بندوق کی نوک پر طاقت حاصل کی ہے اور انھوں نے آئی ای ڈی بنانے میں بھی کمال مہارت حاصل کررکھی ہے چنانچہ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے حاصل کردہ علاقے کی ’’خود مختاری‘‘ کا احترام کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ اُنھوں نے ایسا کوئی عندیہ نہیں دیا کہ وہ ہتھیار ڈالتے ہوئے ریاست کے آئین کو تسلیم کرنے جارہے ہیں۔ اگر کوئی ایسا سوچ رہا ہے تو احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔ دوسری طرف ہمارے سیٹھ صاحبان بھی انہی خطوط پر سوچ رہے ہیں۔ ان کی نظر اپنی صنعتی سرگرمیوں کے فروغ پر ہے اور یہی ان کی حکومت کا ایجنڈا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ طرفین میں کوئی بھی یہ بات زبان پر لانے کا روادار نہیں لیکن حقیقت پسندی سے دیکھیں تو اس میں کوئی شبہ نہیں رہ جاتا کہ معاملہ کسی شریعت کا نہیں، اپنے اپنے مفادات کی رکھوالی کا ہے۔

کارٹون

کارٹون : 31 مارچ 2025
کارٹون : 30 مارچ 2025