• KHI: Zuhr 12:41pm Asr 5:00pm
  • LHR: Zuhr 12:11pm Asr 4:29pm
  • ISB: Zuhr 12:16pm Asr 4:33pm
  • KHI: Zuhr 12:41pm Asr 5:00pm
  • LHR: Zuhr 12:11pm Asr 4:29pm
  • ISB: Zuhr 12:16pm Asr 4:33pm

اجتماعی قبروں کا معمہ حل نہ ہو سکا

شائع February 6, 2014
۔ —فائل فوٹو
۔ —فائل فوٹو

کوئٹہ: ایک ہفتہ گزرنے کے باوجود بلوچستان کے ضلع خضدار سے برآمد ہونے والی تیرہ مسخ شدہ لاشوں کا معمہ حل نہیں ہو سکا۔

خضدار کے علاقے توتک سے ملنے والی ان میں سے دو لاشوں کو شناخت کے بعد ان کے لواحقین کے حوالے کر دیا گیا۔

وزیر اعلیٰ ڈاکٹر مالک بلوچ نے بلوچستان ہائی کورٹ کے جج نور محمد مسکن زئی پر متشمل ایک رکنی کمیشن کو واقعہ کی تحقیقات کا حکم دے رکھا ہے۔

تاہم، ایک ماہ میں اپنی رپورٹ جمع کرانے کے پابند اس کمیشن نے اب تک اپنی کارروائی کا آغاز نہیں کیا۔

کمیشن مستقبل میں لوگوں کے بیان ریکارڈ کرنے کے علاوہ ضرورت پڑنے پر واقعہ کی جگہ کا معائنہ بھی کرے گا۔

ضعلی انتظامیہ کی جانب سے چار غیر روائتی اجمتاعی قبروں سے ملنے والی ان لاشوں کی معلومات دیے جانے کے بعد سپریم کورٹ نے واقعہ کا نوٹس لیا۔

سپریم کورٹ اس حوالے سے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین نصراللہ بلوچ کا بیان بھی ریکارڈ کر چکی ہے، جن کا کہنا تھا کہ برآمد ہونے والی تین لاشوں کی شناخت لاپتہ افراد کے طور پر ہو چکی ہے۔

دوسری جانب، چار رکنی میڈیکل بورڈ نے لاشوں کا پوسٹ مارٹم کرنے کے علاوہ ڈی این اے کے نمونے بھی حاصل کر لیے۔

صوبائی سیکرٹری داخلہ اسد الرحمان گیلانی نے ڈان کو بتایا کہ ان نمونوں کو ٹیسٹ کے لیے اسلام آباد بھیج دیا گیا ہے اور مکمل رپورٹ چھ ہفتوں میں آ جائے گی۔

عہدے دار نے مزید کہا کہ اپنے لاپتہ بیٹوں کی تلاش کرنے والی بارہ خواتین نے اپنے ڈی این اے نمونے فراہم کیے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ اب تک دو لاشوں کی شناخت ان کی جیبوں میں موجود شناختی کارڈز کی مدد سے ممکن ہو سکی۔

شناخت ہونے والے دونوں افراد گزشتہ سال اکتوبر میں آواران ضلع سے لاپتہ ہوئے تھے۔

دونوں مسخ شدہ اور ناقابل شناخت لاشیں توتک میں آدھی دفن تھیں اور ایک چرواہے نے انہیں دیکھنے پر خضدار انتظامیہ کو اطلاع دی۔

ذرائع کے مطابق، میڈیکل ٹیم نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ دونوں لاشیں تقریباً تین مہینے پرانی ہیں اور ان کے سر اور سینے میں گولیاں ماری گئیں۔

یہ رپورٹ متعلقہ حکام کو جمع کرا دی گئی ہے۔ کہا جا رہا کہ بقیہ گیارہ لاشیں ان دونوں سے بھی کہیں زیادہ پرانی ہیں۔

ایک عہدے دار کے مطابق، تین قبروں میں نامناسب انداز میں دفن گیارہ لاشوں کے محض ڈھانچے ہی ملے ہیں۔

میڈیکل ٹیم کی جمع ہونے والی رپورٹ کے مندرجات عام نہ ہونے کی وجہ سے اب تک یہ معلوم نہیں ہوا کہ ان گیارہ افراد کو کیسے قتل کیا گیا۔

کئی سالوں سے لاپتہ افراد کے اہل خانہ خضدار کے ضلعی ہسپتال آ رہے ہیں تاکہ انہیں اپنے گمشدہ عزیزوں کے بارے میں کوئی اطلاع مل سکے۔

ایک ڈاکٹر نے ڈان کو بتایا کہ لوگ بڑی تعداد میں ہسپتال آ رہے ہیں تاکہ مردہ خانہ میں موجود لاشوں کی شناخت کے حوالے سے انہیں کچھ معلومات مل سکے۔

حکام کا کہنا ہے کہ ان اجتماعی قبروں سے تیرہ لاشیں ملیں تاہم متعدد بلوچ سیاسی پارٹیوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق توتک سے 150 سے زائد لاشیں برآمد ہوئیں۔

کالعدم بلوچ تنظیموں کا دعوی ہے کہ یہ تعداد دو سو ہے اور ان میں لاپتہ افراد بھی شامل ہیں۔

انسانی حقوق اور دوسری بلوچ تنظیموں کا ماننا ہے کہ توتک سے مزید لاشیں برآمد ہو سکتی ہیں۔ سیکورٹی اہلکاروں نے علاقے کو گیھرے میں لے رکھا ہے۔

ان تنظیموں نے تجویز دی ہے کہ آزاد انسانی حقوق کے اداروں کو علاقے کا دورہ کرنے کی اجازت دی جائے۔

سیاسی مبصرین کہتے ہیں کہ لاشوں کا ملنا ڈاکٹر مالک بلوچ کی اتحادی حکومت کے لیے بڑا دھچکہ ہے۔

ڈاکٹر مالک نے اس المناک واقعہ کے پیچھے افراد کو تلاش کرنے کا عہد کیا ہے۔

'ہم بلوچستان کے لوگوں سے کچھ نہ چھپاتے ہوئے کمیشن کی رپورٹ عام کریں گے'۔

تبصرے (1) بند ہیں

razak khatti Feb 06, 2014 03:01pm
mujhy BNP( Mengal) k MNA Essa Noori ny bataya hy k 160 sy zaed lashein mily hain Razak khatti islamabad

کارٹون

کارٹون : 16 مارچ 2025
کارٹون : 15 مارچ 2025