ہمارا ورثہ بچائیے
پاکستان کے تاریخی ورثے کے تحفظ کی خاطر سرکاری رویہ بڑے پیمانے پرغفلت اور عدم دلچسپی کا حامل ہے۔ یہ کہنا شاید غلط نہ ہو کہ ریاست اور سماج کے ایک بڑے حصے کو مٹتے تاریخی ورثے سے کوئی سروکار نہیں ہے۔
مثال کے طور پر اسی طریقہ کار لے لیجیے، جسے ٹیکسلا میوزیم کی انتظامیہ کے بھرتی کیے گئے عملے نے، سرکپ کے عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیے گئے مقام کے اطراف سے جھاڑیوں کی صفائی کے واسطے اختیار کیا۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ایسے ماہرین کی مدد لی جاتی جو آثارِ قدیمہ کو نقصان پہنچائے بغیر، احتیاط سے جھاڑیوں اور خود رو پودوں کی صفائی کرتے لیکن جیسا کہ ڈان اخبار میں رپورٹ بھی شائع ہوچکی، صفائی کے عملے نے جھاڑیوں کو تلف کرنے کی خاطر انہیں آگ لگادی، جس کے باعث تاریخ کے قدیم ترین شہر کے آثار کی بعض دیواروں کو شدید نقصان پہنچا۔
یونیسکو حکام کا کہنا ہے کہ وہ تاریخی آثار کے اطراف سے جھاڑیوں اور خود رو سبزے کی صفائی کے طریقہ کار سے متعلق، ماہرینِ آثارِ قدیمہ کو روشناس کرانے کی خاطر ایک پروگرام تیار کررہے ہیں: چلیے، امید کرتے ہیں کہ یہ پروگرام، طریقہ کار کا حصہ بن کر سرکپ آثار کے تحفظ میں مددگار ثابت ہوگا۔
علاوہ ازیں حکومتِ سندھ، سنیچر سے ، پانچ ہزار سال قدیم موئن جو داڑو کے آثار سے، سندھ فیسٹیول کے آغاز کی منصوبہ بندی کررہی ہے۔
پی پی پی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری نے اس فیسٹیول کو 'ثقافتی انقلاب' سے تعبیر کرتے ہوئے، پاکستان بالخصوص سندھ کی ثقافت سے آگاہی کی ضرورت پر زور دیا ہے تاہم بعض شہریوں نے فیسٹیول کی سرگرمیوں سے موئن جو ڈرو کو پہنچنے والے ممکنہ نقصانات پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
یونیسکو کے اسلام آباد دفتر کو لکھے گئے ایک خط میں شہریوں کا کہنا تھا کہ فیسٹیول کی تیاریوں کے ضمن میں 'غیر تربیت یافتہ عملہ' قدیم آثار کے حامل اس مقام پر کھدائیاں کررہا ہے، جس کے سبب 'پہلے سے مخدوش آثار اور تعمیراتی ڈھانچے' کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔
اس کے ساتھ ہی، موئن جو دڑو میں فیسٹیول کی افتتاحی تقریب کو رکوانے کی خاطر دائر ایک درخواست کے جواب میں، سندھ ہائی کورٹ نے جمعرات کو صوبائی محکمہ ثقافت کو ہدایت کی کہ وہ یہ بات یقینی بنائے کہ فیسٹیول سے موئن جو دڑو کو کسی قسم کانقصان نہ پہنچنے پائے۔
بلاشبہ، سندھ کی ثقافت کے تحفظ اور فروغ کی خاطر، فیسٹیول کے انعقاد کے مقاصد نیک ہیں تاہم بہتر منصوبہ بندی کے بغیر، صرف نیک نیتی کی بنیاد پر کی جانے والی کوششوں کے نتائج بھی بعض اوقات خطرناک نکلتے ہیں۔
موئن جو دڑو، پہلے ہی متعدد عناصر اور بحالی کی ناقص کوششوں سے شدید متاثر ہوچکا، لہٰذا سب سے ضروری یہ ہے کہ سندھ کی تہذیب میں شہری منصوبہ بندی کے اس عظیم ترین آثار کا جو کچھ حصہ باقی بچ سکا ہے، اسے تحفظ فراہم کیا جائے۔
سندھ کے عظیم تاریخی و ثقافتی ورثے کو فروغ دینے کی ضرورت ہے لیکن یہ سب کچھ پائیدار طور طریقوں سے ہونا چاہیے۔
تبصرے (1) بند ہیں