”دہشت گردی کے خلاف فوج ہائی الرٹ برقرار رکھے گی“
اسلام آباد: حکومت نے منگل کے روز قومی اسمبلی کو مطلع کیا کہ پاکستان کی مسلح افواج دہشت گردی کے خلاف اپنی جدوجہد سے پیچھے نہیں ہٹے گی اور طالبان دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات کے نئے اقدام کے باوجوددہشت گردی کے خلاف ان کا ”ہائی الرٹ“ جاری رہے گا۔
یہ یقین دہانی، ملک میں امن و امان کی صورتحال پر جاری طویل بحث کے آخر میں وزیرِ مملکت برائے امورِ داخلہ محمد بلیغ الرحمان کی جانب سے سامنے آئی۔ انہوں نے کہا کہ اس ایوان میں وزیراعظم نواز شریف نے بدھ کو جو اعلان کیا تھا، اس سے دہشت گردوں کو ایک پُرامن تصفیہ کے لیے ایک موقع فراہم کرنا ہے، اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ ”ہماری افواج اپنے مشن سے غفلت نہیں برتے گی“ اور ”نہ ہی اپنے مقصد سے پیچھے ہٹے گی۔“
انہوں نے کہا کہ ”ایسا نہیں ہوگا، اور مسلح افواج اپنا ہائی الرٹ برقرار رکھیں گی۔“
بظاہر ایسا لگتا ہے کہ یہ بات وزیراعظم کے حیرت انگیز فیصلے پر تنقید کرنے والوں کے خدشات کو دور کرنے کے لیے کہی گئی ہے۔ طالبان نے پہلے حکومت کی مذاکرات کی ایک پیشکش کو ٹھکرادیا تھا اور عام شہریوں اور فوج کے سپاہیوں پر ہلاکت خیز حملے جاری رکھے تھے، لیکن پھر پچھلے ہفتے خود انہوں نے مذاکرات کی پیشکش کی، جس کا مقصد یہ تھا کہ شمالی وزیرستان کے قبائلی علاقے میں ان کے اہم گڑھ پر ایئرفورس کی جانب سے جوابی حملے کیے گئے تھے، جس سے ان کو شدید نقصان پہنچا تھا، چنانچہ خود کو دوبارہ منظم کرنے کے لیے انہیں وقت درکار تھا۔
بلیغ الرحمان نے گزشتہ ماہ کے پچھلے سیشن سے جاری اس بحث کو سمیٹتے ہوئے اس بات کو دہرایا کہ حکومت کی جانب سے یہ بارہا کہا جاچکا ہے کہ اس کے امن کے لیے کیے گئے پچھلے اقدامات کو نو ستمبر کو منعقدہ کل جماعتی کانفرنس کا مینڈیٹ حاصل تھا، حکومت کو اس وقت مایوسی کا سامنا کرنا پڑا تھا جب یکم نومبر کو اس وقت کے طالبان کے سربراہ حکیم اللہ محسود شمالی وزیرستان میں امریکی ڈرون حملے سے ہلاک ہوگئے تھے۔ اس سے کچھ ہی دیر پہلے نامعلوم ثالثوں کا ایک وفد اس علاقے کے لیے روانہ ہونے ہی والا تھا۔
وزیراعظم کی جانب سے مذاکرات کو آگے بڑھانے کے لیے ایک نئی کمیٹی کے چار اراکین کے ناموں کے اعلان پر بعض میڈیا رپورٹ میں ان کی وابستگی کے بارے میں جو تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے، ان کو مسترد کرتے ہوئے انہوں نے کہا اسے ایک غیرجانبدار کمیٹی قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ اس نئے اقدام کو تمام سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل ہے۔ؕ
سات ماہ سے زیادہ کی نامعلوم وجہ کے تحت وزیراعظم کی غیرحاضری کے بعد ان کی ایوان میں بدھ کے روز آمد اور ان کے حیرت انگیز اقدام کے بعد جمعرات کو ایون میں حاضری غیر تسلی بخش رہی اس لیے کہ وزیرِاعظم بلوچستان کے دورے پر چلے گئے تھے۔
حزب اختلاف کی مرکزی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی کی طرف سے نفیسہ شاہ نے اس کمیٹی کی تشکیل پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس کے تین اراکین کے ناموں پر مختلف نکتہ نظر سامنے آئے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ دہشت گردی سے نمٹنے کا معاملہ مزید مخمصے کا شکار ہوجائے گا۔
انہوں نے اس کے لیے ایک کثیر الجہتی پالیسی اختیار کرنے کا مطالبہ کیا، اس طرح کی پالیسی ان کے مطابق پیپلزپارٹی کی پچھلی حکومت نے اختیار کررکھی تھی، جب صوبہ خیبرپختونخوا کے ڈویژن مالاکنڈ میں طالبان کی بغاوت کو کچلنے کے لیے 2009ء کے دوران فوجی آپریشن کیا گیا تھا، اس فوجی آپریشن میں طالبان کو شکست سے دوچار ہونا پڑا تھا۔
قومی وطن پارٹی کے رہنما آفتاب احمد شیرپاؤ، جو طالبان سے متاثرہ صوبے کے وزیراعلٰی بھی رہ چکے ہیں، ایوان کی توجہ مبذول کراتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مسئلے کی جڑ تک پہنچا جائے اور جس سے لوگوں کے درمیان خوف پھیل چکا ہے۔
آفتاب شیرپاؤ نے مطالبہ کیا کہ حکومت اس کے لیے کوئی حتمی وقت اور اس عمل کے لیے ایک خطرے کی لکیر مقرر کرے۔ اگرچہ انہوں نے وعدہ کیا کہ حکومت کے اس نئے اقدام کی اور حکومت کی جانب سے جو بھی درست قدم اُٹھائے جائیں گےان کی پارٹی اس کی حمایت کرے گی۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کے رکن اسمبلی سید عیسٰی نوری نے اپنی جذباتی تقریر سے ایوان میں کچھ ہلچل سی پیدا کردی، جس میں انہوں نے سیکیورٹی ایجنسیوں کی جانب سے بلوچ نوجوانوں کے اغوا اور ہلاکتوں کا الزام عائد کیا اور انہوں نے مطالبہ کیا کہ وزیراعظم اسی طرح کی ایک کمیٹی بلوچ مخالفین کے ساتھ مذاکرات کے لیے تشکیل دی جائے۔
انہوں نے کہا کہ ان بلوچوں کے ساتھ جو اپنے صوبے کے وسائل پر اپنا کنٹرول چاہتے ہیں، نہ کہ وہ جو ملک کی شکل و صورت بدلنا چاہتےہیں۔