مشرف کی نظرثانی کی درخواست مسترد
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے اکتیس جولائی 2009 کے عدالتی فیصلے کے خلاف سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کی نظرثانی کی درخواست خارج کردی ہے۔
چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے چودہ رکنی لارجر بینچ نے 31جولائی کے فیصلے کے خلاف مشرف کی نظرثانی درخواست پر سماعت کی۔
اکتیس جولائی کے فیصلے میں اُس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں چودہ رکنی بینچ نے پچھلی چار دہائیوں میں فوج کے اقتدار پر مسلسل قبضوں اور اعلٰی عدلیہ کی جانب سے ان اقدامات کی توثیق کی مذمت کرتے ہوئے جنرل پرویز مشرف کی طرف سے ملک میں ایمرجنسی نافذ کرنے کے حکم اور اس کے تحت اٹھائے گئے مختلف اقدامات کو غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دیا تھا۔
جمعرات کو مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس نے مشرف کے وکیل شریف الدین پیرزادہ سے مکالمے میں کہا کہ کل بھی کہا تھا درخواست میں وہ پیرا بتائیں جس سے سابق چیف جسٹس متعصب ثابت ہوتے ہوں۔
شریف الدین پیرزادہ نے کہا کہ جج کے لیے ضروری ہے کہ غیر جانبدار ہو، جج کو بغیر کسی دباو کے فیصلے دینے چاہئیں، ملکی تاریخ میں کئی مرتبہ آئین سے متصادم کام ہوئے ہیں،عدلیہ نے اہم ایشوز پر ایسے اقدامات کی اجازت دی۔
اس پر جسٹس ثاقب نثار نے سوال کیا کہ کیا آپ ظفر علی شاہ اور نصرت بھٹو کیسوں کا حوالہ دینا چاہتے ہیں، اس طرح مستقبل میں کوئی بھِی آئین کی خلاف ورزی کرکے ان کیسوں کا حوالہ دے سکتا ہے۔
جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ سابق وزیراعظم نے مشرف کو خط لکھا 7 ماہ میں ایک ہزار سے زائد افراد قتل ہوچکے ہیں اور ایمرجنسی نافذ کرنے کی تجویز دی، اس طرح 2013میں 6 ہزار سے زائد افرااد قتل ہوئے، تو کیا ملک میں ایمرجنسی لگا دینی چاہئیے؟۔
اس موقع پر درخواست گزار کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ، سابق ہندوستانی وزیر اعظم اندرا گاندھی جیسی شخصیات کے علاوہ کینیڈا اور ہندوستان جیسے ملکوں کے حوالے بھی دیے۔
تاہم جسٹس ثاقب نثار نے اس پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی درخواست کا اس معاملے سے کیا تعلق ہے؟۔
جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ آدھے گھنٹے سے آپ کے حوالوں کو جوڑ رہا ہوں، ان ساری باتوں کا آپس میں کوئی تعلق نہیں بنتا۔
بعدازاں عدالت نے نظرثانی درخواست پر سماعت میں ساڑھے 11 بجے تک کا وقفہ کردیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ مشرف کے وکلا کے دلائل مکمل ہو چکے ہیں، معاملے کا جائزہ لیں گے، ضرورت پڑی تو فریقین کو نوٹس جاری کیا جائے گا۔
وقفے کے بعد عدالت نے پرویز مشرف کی نظرثانی درخواست خارج کرتے ہوئے کہا کہ نظرثانی کی درخواست میرٹ پر نہیں بنتی، جو دلائل دیے گئے وہ بھی اس سے مطابقت نہیں رکھتے۔
جنرل مشرف نے چار سال کے وقفے کے بعد شریف الدین پیرزادہ، محمد ابراہیم ستی اور ڈاکٹر خالد رانجھا کے توسط سے اس فیصلے کے خلاف نظر ثانی پٹیشن دائر کی تھی۔
پٹیشن میں موقف اختیار کیا گیا کہ اکتیس جولائی کے فیصلے کو ختم کیا جائے کیونکہ اس وقت کے چیف جسٹس کے اختیارات کے غلط استعمال کے خلاف مشرف نے بطور صدر ایک ریفرنس بھیجا تھا، جس کی وجہ سے دونوں شخصیات ایک دوسرے کی حریف بن گئی تھیں۔
مشرف نے متعلقہ پٹیشن میں مزید مؤقف اختیار کیا تھا کہ اس وقت کے منتخب وزیر اعظم شوکت عزیز نے غیر آئینی اقدامات کے تحت ایمرجنسی نافذ کرنے کی تجویز دی تھی۔
تبصرے (1) بند ہیں