فوج لاپتہ افراد کیس میں عدالتی فیصلے پر نظرثانی کی خواہاں
اسلام آباد: دس دسمبر کو 35 لاپتہ افراد کے کیس میں سپریم کورٹ کی جانب سے جاری فیصلے پر وزارتِ دفاع نے کہا ہے کہ عدالت کی جانب سے اس جبری گمشدگی کا ذمے دار پاکستانی فوج کو ٹھہرانے سے افواج کا مورال کم ہوگا جو سوات اور مالاکنڈ میں دہشتگردوں سے جنگ میں مصروف ہے۔
اس فیصلے پر عدالت کی جانب سے نظر ثانی کی پٹیشن دائر کرتے ہوئے وزارتِ دفاع نے مجاز عدالت سے درخواست کی ہے کہ ملک کو وقوم کے مفاد میں افواجِ پاکستان اور انٹیلی جنس اداروں کیخلاف ریکارڈ کی گئے الفاظ، شواہد اور تفصیلات کو مٹادیا جائے۔
وزارت نے یہ بھی زور دیا کہ ان آبزرویشن اور ریمارکس کو اسطرح حذف کیا جائے کہ یہ فیصلےکا حصہ نہیں تھی۔
گزشتہ سال دس دسمبر کو سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہ میں تین رکنی بینچ نے فیصلہ دیا تھا کہ فوج مالاکنڈ گیریژن سے 35 افراد کو لے گئی ہے جس میں سے صرف سات کو ہی عدالت میں پیش کیا گیا ہے۔ بنچ نے یہ بھی کہا تھا کہ عدالت کے احکامات نہ ماننے والے افراد کیخلاف کارروائی کی جائے۔
کورٹ نے اس عمل کو انسانیت کیخلاف سنگین جرم قرار دیا تھا۔
جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کی ایک بنچ پیر سے لاپتہ یاسین شاہ کیس کی دوبارہ سماعت کرے گی جس کی درخواست ان کے بھائی محبت شاہ نے دائر کی تھی اور اسی بنیاد پر کورٹ نے دس دسمبر کا فیصلہ سنایا تھا۔
دس جنوری کو اس سلسلے کی آخری سماعت میں کورٹ نے وزیرِ اعظم کے سیکریٹری جاوید شاہ سے کہا تھا کہ وہ فیصلے پر عمل درامد نہ ہونے کا معاملہ وزیرِ اعظم کے نوٹس میں لائیں۔
ساتھ ہی چیف سیکریٹری خیبر پختونخواہ محمد شہزاد ارباب کو بھی ہدایت دی گئیں کہ وہ وزیرِ اعلیٰ پرویز خٹک کے علم میں یہ بات لائیں کہ کورٹ کے احکامات پر عمل نہیں کیا جارہا ۔
ریویو پٹیشن کا ڈرافٹ اڈیشنل اٹارنی جنرل شاہ خاور نے تیار کیا ہے جس میں یہ کہا گیا ہے کہ عدالت یہ جاننے میں ناکام رہی ہے کہ مالاکنڈ اور سوات میں فوج کو آرٹیکل 245 کے تحت بلایا گیا ہے تاکہ وہ دہشتگردی سے شدید متاثر علاقے میں سول انتظامیہ کی مدد کرسکے۔
' جب آرمی کو آئینی ڈیوٹی کے تحت سول اتھارٹیز کی مدد کیلئے طلب کیا جاتا ہے تو ہائی کورٹ کا عدالتی دائرہ اور آئین کے بنیادی حقوق معطل ہوجاتے ہیں۔'
پٹیشن میں کہا گیا ہے کہ اس فیصلے کے ملک میں اور بیرونِ ملک میں ریاست پر تباہ کن اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
پٹیشن میں مالاکنڈ میں 35 افراد کے معاملے پر دیئے گئے فیصلے کو حقائق سے سے دور قرار دیتے ہوئے مزید چھان بین کی درخواست کی گئی ہے۔
' مزید تحقیق کے ذریعے مناسب معاونت کے بغیر، پاکستان آرمی کو ان لاپتہ افراد کو قید میں رکھنے کا ذمے دار قرار نہیں دیا جاسکتا،' درخواست میں کہا گیا۔ ساتھ ہی کہا گیا ہے کہ لاپتہ افراد کے معاملے کو آرمی سے جوڑنے کی بات ریکارڈ اور حقائق سے ثابت نہیں ہوتی۔