• KHI: Zuhr 12:41pm Asr 5:00pm
  • LHR: Zuhr 12:11pm Asr 4:28pm
  • ISB: Zuhr 12:17pm Asr 4:32pm
  • KHI: Zuhr 12:41pm Asr 5:00pm
  • LHR: Zuhr 12:11pm Asr 4:28pm
  • ISB: Zuhr 12:17pm Asr 4:32pm

ڈان ڈاٹ کام کے ایڈیٹر مصدق سانول انتقال کرگئے

شائع January 17, 2014
پچاس سالہ مصدق سانول پھیپھڑوں کے کینسر میں مبتلا تھے۔
پچاس سالہ مصدق سانول پھیپھڑوں کے کینسر میں مبتلا تھے۔

کراچی: ایک سال تک کینسر سے لڑنے کے بعد ڈان ۔ کام کے ایڈیٹر مصدق سانول جمعہ کی صبح انتقال کر گئے۔

انیس سو باسٹھ میں پیدا ہونے والے سانول کو اپنی صحافت، فن سے محبت اور ساتھیوں سے والہانہ لگاؤ کی وجہ سے یاد رکھا جائے گا۔

انہوں نے اسی کی دہائی میں نیشنل کالج آف آرٹ سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد موسیقی کی تربیت بھی حاصل کی وہ وقتاً فوقتاً اپنے فن کا مظاہرہ کرتے رہتے تھے۔

اسی کی دہائی کے آخری سالوں میں وہ کراچی منتقل ہو گئے اور کئی سالوں تک نامور مصنف محمد حنیف کے ساتھ رہنے کے بعد دونوں بی بی سی میں کام کرنے کے لیے لندن چلے گئے۔

گزشتہ دہائی کے وسط میں وہ ڈان اخبار کے ایڈیٹر عباس ناصر کے ہمراہ پاکستان لوٹ آئے۔

تقریبا ایک سال پہلے ان میں پھیپڑوں کے کینسر کی تشخیص ہوئی۔ کئی مہینوں تک زیر علاج رہنے کے بعد مصدق سانول جمعہ کو انتقال کر گئے۔

ان کی نماز جنازہ کراچی میں ادا کی گئی جس کے بعد ان کے جسد خاکی کو تدفین کے لیے آبائی شہر ملتان لے جایا گیا۔

انہوں نے پسمندگان میں بیوی اور دو بچوں کو چھوڑا ہے۔

تبصرے (6) بند ہیں

اصف جیلانی Jan 17, 2014 02:49pm
مصدق کے یوں اتنی جلد اس دنیا سے چلے جانے پر سخت صدمہ ہوا۔ مصدق کے ساتھ میرے بی بی سی میں یاد گار دن گذرے ہیں۔وہ واقعی ایک ہیرا اآدمی تھا جس میں بے شمار گن تھے سب سے بڑا گن اس کا بے لوث دوستی کا جذبہ تھا۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ اسے جنت فردوس میں جگہ دے اور اس کے درجات بلند کرے اور اس کے پسماندگان اور دوستوں کو صبر جمیل عطا کرے۔ آصف جیلانی
فراز قریشی Jan 17, 2014 03:24pm
آواز سو گئی مصدق سانول انتقال کر گئے۔ ایک بڑے انسان کی موت پر ان کو کس پہچان سے یاد کیا جائے فیصلہ مشکل ہے۔ گلوکار، اداکار فلم میکر یا صحافی، ڈائرکٹر، ریسرچر اور پھر ایک انسان دوست۔ ملتان سے تعلق رکھنے والے مصدق سانول نے لہور سے نیشنل اسکول آف آرٹس سے تعلیم حاصل کی اور تھیٹر اور گلوکاری سے وابسطہ ہوئے اور اس دوران اپنی موسیقی اور فن کی بدولت عوامی جمہوری جدوجہد میں بھی شامل رہے۔ دوستوں کے دوست مصدق سانول اپنی مادری زبان سرائیکی کے ساتھ ساتھ، پنجابی، سندھی، اردو اور انگلش پر بھی عبور رکھتے تھے۔ اگر کوئی ایک لفظ کو مصدق سانول کے لئے بنا ہو تو وہ انسان دوست ہو سکتا ہے۔ ایک بار کسی محفل میں احمد ندیم قاسمی کی لکھی ہوئی نظم گائی تو معروف ناول نگار اور صحافی نے کہا آج تمہاری گائیکی کے صدقے احمد ندیم قاسمی کو معاف کیا۔ (احمد ندیم قاسمی کی وہ قربت جو ضیاالحق کے ساتھ تھی)۔ ان سے میری کبھی براہ راست ملاقات نہیں ہوئی بلکہ کچھ بلا واسطہ یادیں ہیں۔ وہ میرے ادارے (پاکستان انسٹیٹوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ) میں میرے آنے سے کوئی بیس سال پہلے ڈائرکٹر ریسرچ رہے ۔ بائیں بازو کے معروف دانشور اور سابق گورنر بلوچستان میر غوث بخش بزنجو کے سیکریٹری بی۔ ایم۔ کٹی صاحب کی کتاب کی تقریب پذیرائی کے موضوع پر وہ پی۔ایم۔اے ہاوس میں تشریف لائے تو شیخ ایاز کی ایک غزل پڑھی۔ غزل کے آغاز میں اداس لہجے اور پرامید آنکھوں کے ساتھ کچہ یہ الفاظ کہے ‘‘ یہ نظم سندھی زبان میں ہے اور موضوع کچھ یوں ہے کے ایک انقلابی اس دھرتی پر سرخ سویرے کا انتطار کر رہا ہے۔ بہرحال اس سرخ سویرے کے انتظار میں ہم سب بوڑھے ہوگئے پر
وقار Jan 17, 2014 05:57pm
میں تو اب یہ بھی نہیں کہ سکتا سانول موڑ مہاراں!
سہیل سانگی Jan 17, 2014 06:57pm
ہم سے صرف ایک اچھا دوست اور اچھا انسان ہی نہیںبچھڑا بلکہ ایک ایسا شخص ہم سے جدا ہوگیا جو نہ صرف روشن خیالی پر عمل پیرا تھا بلکہ اس تصور کے فروغ کے لیے بھی کوشاں تھا۔ صوفیانہ صفات کے ساتھ کھرا بندہ جس میں تخلیق کوٹ کوٹ کے بھری ہوئی تھی۔ ان سے میری پہلی ملاقات کراچی میں انے اعزاز میں منعقدہ ایک محفل میں ہمارے جگر دوسر خدابخش ابڑو نے کرائی تھی۔ برسوں بعد تب ملاقات ہوئی جب انہوں نے ڈان ڈاٹ کام کا چارج سنبھالا۔ ان کی فرمائش تھی کہ میںان کی ویب سائٹ پر سندھ کے بارے میں سندھ کے لیے اور سندھ کے نکتہ نگاہ سے لکھوں۔سانول کو انکار کرنا مشکل تھا۔ اور میں نے اس میڈیا آﺅٹ کے لیے لکھنا شروع کیا۔ اس کے بعد دو تین ملاقاتیں ہوئیں۔ اسکے علاوہ فون پر یا بذریعہ ای میل رابطہ رہا۔ وہ اپنے خیالات، نظریات ، کام کے طریقے کے ساتھ ساتھ گائکی، صحافت، ہدایتکاری، فنکاری کے اسکلز کی وجہ سے یاد کیا جائے گا۔ ان کا کم از کم نصف درجن شعبوں میں کنٹری بیوشن ہے جو اب تاریخ کا حصہ ہیںجسے نظرانداز کرناآسان نہیں۔
سہیل سانگی Jan 17, 2014 06:57pm
ہم سے صرف ایک اچھا دوست اور اچھا انسان ہی نہیںبچھڑا بلکہ ایک ایسا شخص ہم سے جدا ہوگیا جو نہ صرف روشن خیالی پر عمل پیرا تھا بلکہ اس تصور کے فروغ کے لیے بھی کوشاں تھا۔ صوفیانہ صفات کے ساتھ کھرا بندہ جس میں تخلیق کوٹ کوٹ کے بھری ہوئی تھی۔ ان سے میری پہلی ملاقات کراچی میں انے اعزاز میں منعقدہ ایک محفل میں ہمارے جگر دوسر خدابخش ابڑو نے کرائی تھی۔ برسوں بعد تب ملاقات ہوئی جب انہوں نے ڈان ڈاٹ کام کا چارج سنبھالا۔ ان کی فرمائش تھی کہ میںان کی ویب سائٹ پر سندھ کے بارے میں سندھ کے لیے اور سندھ کے نکتہ نگاہ سے لکھوں۔سانول کو انکار کرنا مشکل تھا۔ اور میں نے اس میڈیا آﺅٹ کے لیے لکھنا شروع کیا۔ اس کے بعد دو تین ملاقاتیں ہوئیں۔ اسکے علاوہ فون پر یا بذریعہ ای میل رابطہ رہا۔ وہ اپنے خیالات، نظریات ، کام کے طریقے کے ساتھ ساتھ گائکی، صحافت، ہدایتکاری، فنکاری کے اسکلز کی وجہ سے یاد کیا جائے گا۔ ان کا کم از کم نصف درجن شعبوں میں کنٹری بیوشن ہے جو اب تاریخ کا حصہ ہیںجسے نظرانداز کرناآسان نہیں۔
حسن رضا چنگیزی Jan 17, 2014 07:32pm
عجیب مانوس اجنبی تھا۔۔۔۔ مصدق سانول سے میرا رابطہ کچھ مختصرای میل پیغامات کے زریعے ہوا جو بعد میں ڈان اردو کے ساتھ بحیثیت بلاگر میری وابستگی کا باعث بنا ۔دسمبر 2012 کی بات ہے جب میں نے اپنی پہلی تحریر اس امید کے ساتھ انہیں ارسال کی کہ اگر وہ مناسب سمجھیں تو اسےڈان اردو میں جگہ دیں ۔انہیں میری وہ تحریر کچھ پسند نہیں آئی ۔لیکن انہوں نے کوئی روکھا جواب دینے کے بجائےمجھے اپنی تحریر بہتر بنانے سے متعلق کچھ گُر بتائے اور ساتھ ہی لکھتے رہنے کی تاکید کی ۔ میں نے بھی ان کی نصیحتوں کو گرہ سے باندھ لیا اور ایک نئی تحریر" سلطان راہی کا پاکستان" انہیں ارسال کیا۔جواب میں مجھے جو ای میل موصول ہوا وہ ابھی تک میرے پاس محفوظ ہے۔ "بہت بڑھیا رضا، میں اسے اپنے کولیگ آزاد کو کاپی کر رہا ہوں۔ وہ اسے ایڈٹ کرکے چھاپ دیں گے اور آپ سے اس سلسلے میں مزید بات چیت کرسکیں گے کہ آپ ریگیولرلی لکھیں گے یا کبھی کبھی۔ شکریہ مخلص مصدق" یوں ان کی رہنمائی اور شفقت کی بدولت میری تحریر کو بھی زبان مل گئی اور میں ڈان اردو کے توسط سے قارئین کی ایک بہت بڑی تعداد سے جڑنے میں کامیاب ہوا۔نہ جانے انہوں نے میرے جیسے کتنے بے زبان لکھاریوں کو قوت گویائی دی ہوگی اور کتنے لوگوں کی انگلی تھام کے انہیں اس راستے پر چلنا سکھایا ہوگا ؟ میری ان سے کبھی براہ راست گفتگو نہیں ہوئی لیکن میں جب بھی پیچھے مڑ کے دیکھتا ہوں وہ ہاتھوں میں چراغ تھامے میرے جیسے نو وارد لکھاریوں کو راستہ دکھاتے نظر آتے ہیں ۔وہ میرے لئے استاد اور راہنماء کا درجہ رکھتے تھے۔ اور بہت سارے لوگوں کی طرح آج میں بھی اپنے راہنماء اور استاد سے محروم ہوا ہوں۔

کارٹون

کارٹون : 15 مارچ 2025
کارٹون : 14 مارچ 2025