• KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:16pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:36pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:38pm
  • KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:16pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:36pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:38pm

انسدادِ دہشت گردی آرڈیننس کے مسودے کی منظوری

شائع January 14, 2014
قومی اسمبلی کی کمیٹی برائے داخلہ اور نارکوٹکس کی جانب سے منظور کیے گئے اس مسودے میں کچھ اراکین نے تحفظات کا اظہار کیا۔
قومی اسمبلی کی کمیٹی برائے داخلہ اور نارکوٹکس کی جانب سے منظور کیے گئے اس مسودے میں کچھ اراکین نے تحفظات کا اظہار کیا۔

اسلام آباد: قومی اسمبلی کی کمیٹی برائے داخلہ اور نارکوٹکس نے انسدادِ دہشت گردی کا ترمیمی آرڈیننس (اے آٹی او) 2013ء کا ایک مسودہ بعض اراکین کے اختلافات کے ساتھ گزشتہ روز پیر کو منظور کرلیا۔

تاہم کمیٹی نے پاکستان پروٹیکشن آرڈیننس (پی پی او) 2013ء کو منظور نہیں کیا جس کو کچھ اراکینِ اسمبلی نے 'کالا قانون' اور ہندوستان کے 2002ء کے دہشت گردی سے حفاظت کے ایکٹ کی طرح کا قانون قرار دیا۔

ناقدین کے مطابق پاکستان پروٹیکشن آرڈیننس (پی پی او) کے تحت کوئی بھی حکومتی ایکٹ کی مخالفت نہیں کرسکتا اور تمام قسم کے مظاہروں پر پابندی ہوگی۔

پاکستان تحریکِ انصاف کے عارف علوی اور متحدہ قومی موومنٹ کے نبیل گبول سمیت کمیٹی کے کچھ اراکین نے پی پی او 2013ء کی سخت مخالفت کی اور انسدادِ دہشت گردی کے ترمیمی آرڈیننس کے اندر اختلافی نوٹس تحریر کیے۔

اس موقع پر نبیل گبول نے کہا کہ پروٹیکشن آف پاکستان آرڈیننس کی تجویز کے تحت کوئی بھی حکومتی ایکٹ کے خلاف آواز بلند نہیں کرسکتا۔

انہوں نے کہا کہ اس قانون کے تحت نا ہی کوئی شخص احتجاجی ریلی منعقد کرسکتا ہے، حتیٰ کہ بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ کے خلاف بھی نہیں، جو ملک آئین میں شامل بنیادی حقوق کا حصہ ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ اس کمیٹی کے اراکین اور خاص طور پر حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے اراکین پی پی او کی منظوری چاہتے ہیں۔

کچھ اراکین کی طرف سے تحفظات کے اظہار کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ کمیٹی کے تمام اراکین اگلے اجلاس میں پی پی او پر ایک مرتبہ نظر ثانی کریں گے۔

اگرچہ اراکینِ قومی اسمبلی رانا شمیم احمد خان کی سربراہی میں اس کمیٹی نے انسدادِ دہشت گردی آرڈننس اور پروٹیکشن آف پاکستان آرڈننس 2013ء پر تبادلہ خیال کیا، لیکن خود وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان جو کمیٹی کے ممبر بھی تھے اس اجلاس میں شریک نہیں ہوئے۔

کمیٹی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ' اصل مقصد انسدادِ دہشت گردی کے ترمیمی آرڈیننس پر بات چیت کرنا تھا، تاکہ اس کے بل سے ملک میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی اور لوگوں کی جان و مال کی حفاظت کے لیے قدامات کیے جائیں'۔

انہوں نے کہا کہ اس اجلاس میں وزیر داخلہ کا شرکت نہ کرنا عجیب سی بات ہے۔

اجلاس کے دوران اس بات کا خاص طور پر ذکر نہیں کیا گیا کہ دورانِ اجلاس اے ٹی او کو کمیٹی نے منظور کیا کہ نہیں، لیکن اس کے باوجود اس کو اسمبلی میں بحث کے لیے بھیجا گیا۔

اس ہی دوران اگرچہ مجوزہ بل کو کمیٹی کی طرف سے منظور کیا گیا، لیکن انسدادِ دہشت گردی کے ترمیمی آرڈیننس 2013 اور پاکستان پروٹیکشن آرڈیننس کی متعدد شقیں ایک دوسرے کے براعکس لگ رہی تھیں۔

تحریکِ انصاف کے عارف علوی کا کہنا تھا کہ 'پی پی او کے تحت کوئی بھی شخص اپنے دفاع کے لیے کسی بھی امتباہ کے بغیر کسی دوسرے پر فائر کرسکتا ہے، جبکہ اے ٹی او کے تحت پہلے وہ اس بات کا تعین کرے گا کہ آیا اس شخص پر حملہ کرنا ہے یا نہیں'۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ اے ٹی سی 2013ء میں بہت سی خامیاں ہیں جس کے نتیجے میں یہ پولیس کے لیے ملزمان کے خلاف شواہد جمع کرنے میں ایک مشکل بن گئی ہے۔

عارف علوی کا کہنا تھا کہ انسدادِ دہشت گردی کے ترمیمی آرڈیننس 2013ء کے کے مطابق دس ہزار سے بھی زائد افراد صوبہ سندھ میں مختلف جرائم میں گرفتار کیے گئے، لیکن ان مین سے صرف 280 کے خلاف مقدمات درج ہوئے۔

مشترکہ تفتیشی ٹیم:

اسی دوران کمیٹی نے یہ بھی سفارش کی کہ ایک 18 گریڈ کا آفیسر کو مشترکہ ٹیم کی قیادت کرنی چاہیے جس سے ہر مہینے پولیس کی کارروائیوں کا جائزہ اور الیکٹرونک اور دیگر ثبوتوں کی جانچ پڑتال کی جائے۔

کچھ اراکین نے مشترکہ ٹیم کی طرف سے مقدمات کی تفتیش کے لیے تین مہینے سے زائد کے وقت پر اپنے تحفظات کا بھی اظہار کیا۔

ان کے خیال میں ان مقدمات کی فوری طور پر تفتیش کے لیے ایک مہینے سے بھی کم وقت لگنا چاہیے۔

اس موقع پر کمیٹی نے خصوصاً سندھ میں رینجرز کو تفتیش کے لیے خصوصی اختیارات دینے کی منظور دی، جو وہاں شدت پسندوں اور جرائم پشہ افراد کے خلاف کارروائیاں میں مصروف ہے۔

کارٹون

کارٹون : 1 نومبر 2024
کارٹون : 31 اکتوبر 2024