• KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm

سعودی وزیرِ خارجہ کا دورہ

شائع January 10, 2014
وزیر اعظم پاکستان محمد نواز شریف، سعودی وزیر خارجہ شہزادے سعود الفیصل سے مصافحہ کر رہے ہیں۔ آئی این پی فوٹو۔۔۔۔
وزیر اعظم پاکستان محمد نواز شریف، سعودی وزیر خارجہ شہزادے سعود الفیصل سے مصافحہ کر رہے ہیں۔ آئی این پی فوٹو۔۔۔۔

ایران کے صدر حسن روحانی کے ایک اہم دورے سمیت، یہاں جیو پولیٹکل تناظر میں اس کی ٹھوس وجوہات موجود ہیں جن کی بنا پر سعودی عرب یہ جاننے کی کوشش کرے گا کہ پاکستان کہاں کھڑا ہے۔

جیسا کہ سعودی وزیرِ خارجہ کے دورہ اسلام آباد کے نتائج سے ظاہر ہے، دونوں ممالک نے اپنے دفاعی تعاون کو مزید مضبوط کرنے کی تجدید کی اور شہزادہ سعود الفیصل کے الفاظ میں 'ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے' ہیں۔

گذشتہ چھ برس کے دوران پہلی بار کسی اعلیٰ ترین سعودی شخصیت کا دورہ اسلام آباد، وزیرِ اعظم نواز شریف کے لیے ایک نئے دور کا آغاز ہے جبکہ 'درپیش متعدد چیلنجوں کے سامنے' دونوں ممالک کے اکھٹا کھڑے ہونے کے بیان سے سرتاج عزیز کے مطمئن جذبات بھی جھلکتے ہیں۔

اطلاعات گردش میں تھیں کہ یہ دورہ مشرف کے سلسلے میں ہے لیکن سعودی شہزادے کا کہنا تھا کہ مذاکرات میں توجہ عالمی اور علاقائی معاملات پر مرکوز رہی۔ اس کا مطلب ہے کہ درپیش چیلنجوں کے حوالے سے ایران، شام اور افغانستان بھی مذاکرات میں مرکزی اہمیت کے حامل رہے ہوں گے۔

سعودی وزیرِ خارجہ کا یہ دورہ چوبیس نومبر کو ہونے والے اس جوہری معاہدے کے تناظر میں تھا جو مشرقِ وسطیٰ کی کشیدگی اور اسرائیل کی فوجی تنصیبات پر حملے کے خطرات کم کرنے کی خدمات کے ساتھ ساتھ، مغرب سے ایران کے نئے تعلقات کے قیام کی راہیں بھی کھولے گا۔

ایران پر عائد عالمی اقتصادی پابندیوں، خاص طور پر تیل کی برآمد پر نرمی سے، جب ایران خود کو عالمی معیشت سے جامع انداز میں منسلک کرنے کی کوشش کرے گا، تب سعودی عرب اور دیگر خلیجی بادشاہتیں یقیناً اپنے ردعمل میں اسے ممکنہ طور ایڈجسٹ کرنا چاہیں گی۔

اگر پاک ۔ ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر بدستور جمود طاری رہتا ہے تب بھی، مغرب سے ایران کے تعلقات معمول پر آنا، پاکستان کے واسطے کئی پہلوؤں سے مددگار ہوگا۔

ایک ایسا ہمسایہ جس سے طویل ترین سرحد کی شراکت بھی ہو، اس کے ساتھ روایتی دوستانہ تعلقات پر کوئی سمجھوتا کیے بغیر، اسلام آباد بیک وقت سعودی عرب کے ساتھ جامع تعلقات برقرار نہیں رکھ سکتا۔

جہاں تک افغانستان کاتعلق ہے تو اسلام آباد اور ریاض، دونوں آنے والے دنوں میں حالات کی ابھرنے والی شکل پر فکرمند ہیں۔

لگ بھگ ایک دہائی سے زیادہ جاری رہنے والی وہ جنگ جس میں امریکا اپنے مقاصد واضح نہیں کرسکا تھا، اب رواں سال کے اختتام تک، افغانستان میں امریکا کی زیرِ قیادت لڑنے والی انٹرنیشنل سیکیورٹی اسسٹنس فورس (ایساف) کا انخلا طے ہے۔ تمام تر وقت حامد کرزئی اور ان کے بدعنوان ساتھیوں پر انحصار کرنے کے بعد، اب امریکا ایسا قائد تلاش کر کے اس کی پشت پناہی چاہتا ہے جن کے پاؤں کبھی زمیں پر نہ تھے۔

پاکستان، اور امکانی طور پر سعود عرب کو بھی، ایسی خانہ جنگی دوبارہ شروع ہونے کا خدشہ ہے جس کے نتائج سب سے پہلے پاکستانی ریاست اور اس کے معاشرے پر پڑیں گے۔ کیا اسلام آباد ایک بار پھر اپنے ہاتھ گندے کر کے، افغانستان میں کرائے کی جنگ (پراکسی وار) لڑے گا؟

اسے یہ جان لینا چاہیے کہ بیس برس قبل سوویت انخلا کے وقت جنگجو اس کی پشت پر تھے لیکن اب صورتِ حال بدل چکی، کیا پاکستان کو اس آگ کی سرخ لپٹوں سے دور کھینچنے کے لیے کوئی جواز نہ ہوگا۔

علاقائی صورتِ حال کو مستحکم رکھنے کی خاطر پاکستان، اور خود سعودی عرب کے لیے بھی، نئی خوں ریزی سے دور رہنے میں ہی عافیت ہے۔ اس اصول کا اطلاق شام کی صورتِ حال بھی ہوتا ہے، جہاں غیر شامی عسکریت پسندوں کو لگام دے کر، ریاض صورتِ حال پر مفید اثرات مرتب کرسکتا ہے۔

انگریزی میں پڑھیں

ڈان اخبار

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024