افغانستان: قیدی رہا کرنے کے اعلان پر امریکا کے اعتراضات
کابل: افغانستان نے جمعرات کے روز کہا ہے کہ وہ امریکی اعتراضات کے باوجود مبینہ طالبان قیدیوں کو رہا کرے گا۔
امریکا نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ رہائی پانے والے طالبان نیٹو افواج کے انخلاء سے پہلے دوبارہ سر گرم ہو سکتے ہیں۔
قیدیوں کی رہائی امریکا اور افغان تعلقات میں مزید تناؤ پیدا کرے گی جو پہلے ہی دونوں ممالک کے درمیان سیکورٹی معاہدے پر کرزئی کے دستخط نہ کرنے کے باعث بہت بہتر نہیں ہیں۔
سیکورٹی معاہدہ جس کے تحت دو ہزار چودہ کے بعد بھی کچھ امریکی دستے افغانستان میں رہ سکیں گے، امریکا کا ٓاصرار تھا کہ معاہدے پر جلد از جلد دستخط ہو جائیں جبکہ کرزئی نے اسے آئندہ ہونے والے صدارتی انتخابات سے مشروط کر رکھا ہے۔
ایک بیان میں کہا گیا تھا، کہ افغان صدر حامد کرزئی کی زیر صدارت اجلاس میں انہوں نے بگرام قیدیوں کی دستاویز کا جائزہ لینے کے بورڈ کو بے گناہ اور بغیر ثبوت قیدیوں کو آزاد کرنے کا حکم دیا تھا۔
افغانستان میں نیٹو فورسز کے کمانڈر امریکی جنرل جوزف ڈنفورڈ نے منصوبے پر سرکاری اعتراض درج کیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ مارچ میں بگرام جیل حوالے کرنے کے معاہدے کے خلاف ہے۔
گزشتہ ہفتے امریکی فوج کے ایک ترجمان نے ان خطرناک افراد کو ایک مہلک خطرہ قرار دیا ہے۔
کرزئی کے اصرار پر بگرام جیل کا کنٹرول افغانستان کو منتقل کیا گیا تھا۔ کرزئی کا اصرار ہے کہ اس جیل کا انتظام دوبارہ حاصل کرنا قومی سلامتی کی بحالی جیسا ہے۔
کرزئی کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ 88 قیدیوں میں سے 45 کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہیں اور 27 کے خلاف صرف واقعاتی معلومات ہیں جبکہ 16 قیدیوں کو جیل میں ہی رکھا جائے گا۔
تاہم امریکی حکام کا کہنا ہے کہ 88 قیدی 60 اتحادی فوجیوں اور 57 افغان ہلاکتوں کے ذمہ دار ہیں۔