ہاں یا نہیں؟
پس و پیش، ابہام، تذبذب ۔۔۔ یا پھر یہ سامنے آنے والے سچ کو سمجھنے میں حکومت کی نااہلی ہے۔
وزیرِ پیٹرولیم اور سیکریٹری پیٹرولیم و قدرتی وسائل نے پیر کو سینٹ کی امورِخارجہ کمیٹی کو آگاہ کیا کہ امریکا اور دیگر عالمی طاقتوں کی جانب سے تہران پر عائد اقتصادی پابندیوں کے باعث پاک۔ ایران گیس پائپ لائن منصوبے کے تحت نہ تو پاکستانی حصے میں تعمیر ہوسکتی ہے اور نہ ہی اس میں گیس چھوڑی جاسکتی ہے۔
پہلے برسوں تک پیپلز پارٹی، اور اب کئی مہینوں سے پاکستان مسلم لیگ ۔ نون کے حکمرانوں کے یہ حیلے بہانے ہیں۔
حتیٰ کہ، نہ تو وفاقیِ وزیرِ پیٹرولیم شاہد خاقان عباسی اور نہ ہی سیکریٹری پیڑولیم عابد سعید نے دو ٹوک انداز میں بتایا کہ امریکا یا پھر اقوامِ متحدہ، کون سی (اور کس کی) عالمی پابندیاں گیس پائپ لائن کی تعمیر پر اثر انداز ہورہی ہیں۔
نیز، یہ کس طرح پاک ۔ ایران پائپ لائن کومتاثر کررہی ہیں اور یہ کہ کیا ایسے صوابدیدی اختیارات دستیاب ہیں جن کے تحت اس منصوبے کو استثنا دینے کا کیس تیار کیا جاسکے، جس کی سنگین توانائی بحران سے دوچار معیشت کو اشد ضرورت ہے۔
یہاں سعودی عرب، جسے ایران کے ساتھ فائیو پلس کے حالیہ معاہدے پر دورہ پڑا ہے، کے ساتھ پاکستان کے تعلقات، حکومتِ پاکستان کی اس مساوات کا ایک حصہ تو نہیں ہے۔ اگرچہ یہ براہ راست دشمن تو نہیں تاہم یقینی طور پر سعودی عرب، ایران کا ایک کٹر مخالف ضرور ہے۔
وہاں پالیسی سازوں کے پاس، خلیجِ فارس اور اتار چڑھاؤ سے دوچار مشرقِ وسطی کے ملک ایران کے ساتھ نئے اہم تجارتی و اقتصادی روابط قائم کرنے کے تصور کو آگے بڑھانے کے لیے مضبوط جواز موجود ہیں۔
پائپ لائن منصوبے کو متاثر کرنے والے تمام تر موجودہ جیو پولیٹکل عناصر کی تلاش پاکستان کا حیلہ بہانہ ہوسکتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ملک کے اقتصادی مفادات کی شناخت اور حفاظت کی خاطر ضروری ہے کہ وہ اس منصوبے کو جلد از جلد مکمل کرے اور ایسا نہ کرنے کا کوئی عذر قابلِ قبول نہیں ہوسکتا۔
سفارتی محاذ پر ناکامی ایک بات (اور یقینی طور پر یہ ناکامی اور یہ کہ کون سی متعلقہ شق اس معاملے سے منسلک ہے اور کس طرح اس سے استثنا حاصل کرنے کے لیے دباؤ بڑھایا جاسکتا ہے، کھلے بندوں یہ واضح نہیں) لیکن داخلی سطح پر توانائی کی منصوبہ بندی میں ناکامی بالکل دوسری بات ہے۔
اگر پاک ۔ ایران گیس پائپ لائن تعمیر نہیں کی جاسکتی تو حکومت بتائے کہ پھر ملک میں گیس کی طلب اور فراہمی کے درمیان موجود فرق کو ختم کرنے کے لیے، اس کی وسط مدتی اور طویل المعیاد منصوبہ بندی کیا ہے؟
جیسا کہ جناب عباسی نے بھی سینٹ کمیٹی کو بتایا، ایل این جی ٹرمینل زیرِ تعمیر ہوسکتا ہے لیکن گیس فراہمی کے لیے کثیر الارب ڈالر کے معاہدوں پر دستخط اور ان پھر ان پر عمل، یہ سب کچھ ہونا ابھی باقی ہے۔
اور یہاں گیس صارفین کو دی جانے بہت زیادہ سبسڈی کی اجازت سے حکومت کس طرح، خصوصی مفادات کی ہیرا پھیری کیے بغیر، چار چھ مرتبہ موجودہ گیس اخراجات بڑھانے کے قابل رہ پائے گی؟
وعدہ کردہ بروقت اور اچھی پالیسیاں، جب تک عملی شکل میں تبدیل نہ ہوں اس کی توقع نہیں جس کی حکومت امید کرتی محسوس ہوتی ہے۔