• KHI: Asr 4:12pm Maghrib 5:48pm
  • LHR: Asr 3:26pm Maghrib 5:03pm
  • ISB: Asr 3:25pm Maghrib 5:03pm
  • KHI: Asr 4:12pm Maghrib 5:48pm
  • LHR: Asr 3:26pm Maghrib 5:03pm
  • ISB: Asr 3:25pm Maghrib 5:03pm

بنگلہ دیشی انتخابات

شائع January 8, 2014
سن ستتر والے پاکستانی انتخابات کا ایکشن ری پلے، حسینہ واجد آمریت کو دعوت دے رہی ہیں؟ اے پی فوٹو۔۔۔
سن ستتر والے پاکستانی انتخابات کا ایکشن ری پلے، حسینہ واجد آمریت کو دعوت دے رہی ہیں؟ اے پی فوٹو۔۔۔

سو، شیخ حسینہ واجد اور ان کی جماعت نے بنگلہ دیشی عوام کو دھوکا دیتے ہوئے اتوار کو منعقدہ ایک ناکارہ عام انتخابات میں 'فتح' حاصل کرلی ہے۔

حزبِ اختلاف کی اہم جماعت، بنگلہ دیش نیشنل پارٹی سمیت اٹھارہ سے زائد جماعتوں نے ان انتخابات کا بائیکاٹ کیا، پارلیمنٹ کی تین سو نشستوں میں سے آدھی سے بھی کم پر مقابلہ ہوا اور بعض پولنگ اسٹیشنوں پر ووٹرز ٹرن آؤٹ بیس فیصد سے بھی کم تھا۔

تشدد کےباعث پہلے ہی متعدد ہلاکتیں ہوچکیں، مسئلہ شدت اختیار کررہا ہے اور وزیرِ اعظم کی طرف سے نگراں حکومت کے قیام کے بغیر، تلخی اور تشدد کی اس لہر کے ختم ہونے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔

انتخابات کی نگرانی کے لیے عارضی انتظامیہ کے تقرری کے سبب سن اُنیّس سواکیانوے کے بعد سے، عام طور پر بنگلہ دیشی انتخابات کم و بیش شفاف رہے ہیں تاہم جون دو ہزار دس میں شیخ حسینہ واجد نے آئین میں ترمیم کے ذریعے نگراں حکومت کے نظام کو ہی ختم کردیا تھا۔

مضبوط آئینی اداروں والے، مستحکم جمہوری ممالک میں انتخابات کے لیے نگراں حکومت کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی لیکن بنگلہ دیش جیسے ملک میں، جہاں سن اُنیّس سو اکھہتر کے بعد، درجن بھر سے زائد فوجی مداخلتیں ہوچکی ہوں، وہاں انتخابات کی خاطر درکار، نگراں حکومت کی آئینی شق کا خاتمہ کوئی درست فیصلہ نہیں تھا۔

سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اب کیا ہوگا؟ کون آگے بڑھ کر ایسے عام انتخابات کو تسلیم کرے گا جس میں عوامی لیگ نے بنا مقابلہ ایک سو ستائیس نشستوں پر کامیابی حاصل کرلی ہے؟

بنگلہ دیش نیشنل پارٹی (بی این پی) کی سربراہ اور سابق وزیرِ اعظم خالدہ ضیا نے پورے انتخابی عمل کو 'نہایت شرمناک دھوکے' سے تعبیر کیا، انہوں نے نتائج کو مکمل طور پر کالعدم قرار دیتے ہوئے نئے انتخابات کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔ اخلاقی بنیادوں پر مزید سترہ سیاسی جماعتیں بھی ان کے ہمراہ ہیں۔

اب شیخ حسینہ واجد ایک بہت بڑے سیاسی منجدھار کے بیچوں بیچ ہیں۔ اگر انہوں نے مفاہمت کی راہ اختیار کرنے کے بجائے اتوار کو منعقدہ پولنگ کے نتائج تسلیم کرنے پر زور دیا تو پھر ان کی پوزیشن مزید کمزور ہوگی اور وہ عالمی ہمدردیاں رکھنے والے متحدہ اپوزیشن الائنس کے سامنے زیادہ دیر کھڑی نہ رہ سکیں گی۔

اگر تشدد بدستور جاری رہا تو پھر، خواہ یہ ان کی مرضی کے برخلاف ہی کیوں نہ ہو، حالات ایک بار پھر فوج کو مداخلت پر مجبور کریں گے۔ بنگلہ دیش کی یہ صورتِ حال ہمیں سن اُنیّس سو ستتر کے اُس پاکستانی بحران کی یاد دلاتی ہے، جب انتخابی دھاندلی کو فوج نے اقتدار پر قابض ہونے کے لیے بطور جواز استعمال کیا اور پھر اگلے گیارہ برس تک اسی تناظر میں اقتدار پر جمی رہی۔

اگر عوامی لیگ کی سربراہ اس طرح کی فوجی آمریت نہیں چاہتی ہیں تو انہیں سمجھداری سے کام لیتے ہوئے، عبوری انتظامیہ کی نگرانی میں شفاف انتخابات منعقد کرا کر، اپنی عوامی مقبولیت کا ثبوت دینا چاہیے۔

انگریزی میں پڑھیں

ڈان اخبار

کارٹون

کارٹون : 20 دسمبر 2024
کارٹون : 19 دسمبر 2024