رہائی لیکن قید
اڈیالہ جیل کے ستّر سالہ قیدی بشیر بھٹی کی رہائی چار سال قبل عمل میں آچکی ہوتی اگر تیس جولائی سن دو ہزار نو کو اس کی رہائی کا حکم دینے والے ہائی کورٹ بنچ کو، برّیت کا فیصلہ لکھنے کے لیے وقت کی مناسب مہلت مل جاتی۔ فیصلہ تو سنادیا لیکن ملک میں چلنے والی تاریخی تحریک کے نتیجے میں اگلے روز جو تبدیلی آئی، اس کے سنگین اثرات کی مثال یہ قیدی ہے۔
اکتیس جولائی سن دو ہزار نو کو سپریم کورٹ نے، سن دو ہزار سات کے عبوری آئینی حکمنامہ (پی سی او) کے تحت حلف اٹھانے والے ججوں سے عدلیہ کو پاک کرنے کا حکم دے دیا۔ وہ دو جج جنہوں نے جناب بھٹی کو مقدمہ قتل سے بری کرنے کا حکم دیا تھا، وہ بھی پی سی او چھڑی کی زد میں آئے اور باہر نکال دیے گئے۔
ان دو ججوں کے نامکمل رہنےوالے کاموں میں وہ فیصلہ تحریر کرنا بھی شامل تھا، جس کے تحت جناب بھٹی الزام سے بری ہوئے تھے۔ ان کے وکیل کا کہنا ہے کہ اب مقدمے کی ازسرِ نو سماعت ہوگی جس کا مطلب ہے کہ جناب بھٹی کو غیر معینہ مدت تک بدستور قید بھگتے رہنا ہوگا۔
ایسےوقت کہ جب پاکستان میں قانون کی حکمرانی اور آزاد عدلیہ کی طرف بڑھنے کا ڈھول پوری قوت سے پیٹا جارہا ہے، یہ انصاف سے انکار کی بدترین مثال ہے۔ اس غریب قیدی کو اُن واقعات کی سزا دی جارہی ہے، جس پر اُس بے چارے کا کوئی اختیار ہی نہ تھا۔
ججوں کی شہرت سے قطع نظر، یہ ایسا درخواست گذار تھا جسے انصاف کی تلاش تھی۔ اسے اپنی پسند کا بنچ منتخب کرنے کی آزادی حاصل نہ تھی۔ اس نے عدالت کا رخ کیا اور پھر وہ عدالت ہی برخاست کردی گئی۔
خواہ کچھ بھی ہو، بہت زیادہ بدنام کیے گئے پی سی او ججز نے اُسے انصاف فراہم کیا تھا لیکن اکتیس جولائی کا حکم دینے والی عدلیہ نے دادرسی کی خاطر اس پر اب تک کوئی توجہ ہی نہ دی۔
اُس وقت کے چیف جسٹس افتخار احمد چوہدری کی زیرِ قیادت، جوش سے بھرے اصلاحات پسندوں کی طرف سے پی سی او ججز کی فوری تبدیلی کے فیصلے نے، جناب بھٹی کی طرح نہ جانے کتنوں کی زندگیاں متاثر کی ہوں گی۔
بشیر بھٹی کی قید کو ایک دہائی سے زیادہ گذرچکا، کسی مقدمے کا فیصلہ کرنے کے لیے یہ بہت طویل مدت ہے۔
دریں اثنا، اگر عدلیہ کے تمام زمروں کے ججوں میں منصفی کی تمام تر اہلیت نہیں تو پھر آزاد عدلیہ کا عظیم لقب اختیار کرنا کوئی انقلاب نہیں۔ کسی کو تو اس سنگین غفلت کا الزام اپنے سر لینا ہی ہوگا۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ کسی کو اس معاملے کے اندر جھانکنا ہی ہوگا اور اگر بشیر بھٹی کی طرح مزید ہوں تو سبھی کو بنا مزید کسی تاخیر کے، انصاف کی فراہمی یقینی بنانا ہوگی۔