ایک اور چال
بے شک اس پر یقین کی کوئی وجہ نہیں لیکن یہ مایوس انسان کی طرف سے آخری امید کا اظہار بھی ہوسکتا ہے۔
غداری کے مقدمے کا سامنے کرنے والے ملک کے سابق صدر و فوجی سربراہ پرویز مشرف نے دعویٰ کیا ہے کہ قانون کی اس لڑائی کو لڑنے کی خاطر انہیں فوج کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ ان کے دعوے نے سب سے ٹیڑھے سوال پر، متعدد ٹیڑھے سوال اٹھا دیے ہیں: سول ملٹری تعلقات میں توازن۔
وہ ادارہ، مشرف جس کے لگ بھگ ایک دہائی تک سربراہ رہے، اس نے اب تک نہ تو ان کی اس ترغیب پر نظر کی اور نہ ہی ان کے دعوے سے انکار کرتے ہوئے، کچھ دوری اختیار کی ہے۔ یہاں اس معاملے پر جو خاموشی طاری ہے، اس کی تشریح کسی بھی رخ پر کی جاسکتی ہے
بعد ازمشرف دور کی فوجی قیادت کی طرف سے، یہ ایک بار پھر سیاسی راہ پر آنے کے فیصلے کا اظہار یا پھر مشرف کے کمزور لب و لہجے میں ایک بار پھر، پردے کے پیچھے سے کسی دباؤ یا سودے بازی کا انکشاف بھی ہوسکتا ہے۔
عوام اچھی طرح جانتی ہے کہ فوجی قیادت کے عمل پر شاذ و نادر ہی کوئی سچ سامنے آتا ہو لیکن پھر بھی، سچ خواہ کچھ بھی ہو، یہ نئی فوجی قیادت کے لیے یقینی طور پر نازک لمحہ ہے۔
ہمیشہ کی طرح مسئلہ یہ ہے کہ ارتکاب کرنے والا اب خود متاثر اور جو شکار ہوئے، وہ اب ارتکاب کرنے والے ہیں۔
یہ بالکل واضح ہے اور اس پر کوئی سوال نہیں کہ جناب مشرف، سن اُنیّس سو ننانوے میں آئین کو ایک طرف اچھال کر، غیرقانونی طور پر اقتدار پر قابض ہونے کے گناہ گار ہیں۔
فوجی بغاوت کو متعدد نے سہولتیں فراہم کیں، جس کی بعد میں کچھ اور نے تصدیق کی اور آخر میں پارلیمنٹ نے بھی اس کی توثیق کردی۔ یہ کسی ایک فرد کا انفرادی فیصلہ یا عمل نہیں تھا لیکن سابق آمر کو سن اُنیّس سو ننانوے کی بغاوت سے مقدمے کا سامنا نہیں؛ ان پر صرف سن دو ہزار سات میں ایمرجنسی کے نفاذ کا الزام ہے۔
سن دو ہزار سات میں ایمرجنسی نافذ کرنے میں اُس وقت کے وزیرِ اعظم شوکت عزیز سمیت ہر ایک شریک تھا لیکن اب تمام کو بری الذمہ کیا جارہا ہے، لہٰذا جیسا کہ انٹرویو میں بھی انہوں نے نشاندہی کی، اب اگر وہ خود کو تنہا ذمہ دار ٹھہرانے اور دوسروں کو شامل نہ کیے جانے پر پریشانی کا شکار ہیں تو یہ ان کا ایک نقطہ ضرور ہے۔
لیکن سویلین قیادت مکمل طور پر خاموش رہتے ہوئے، جناب مشرف کی صورت میں، ایمرجنسی نافذ کرنے کے ذمہ داروں میں سے صرف ایک ٹکڑے کو، ذمہ دار ٹھہرانے کو ترجیح دے رہی ہے۔
ہر کہیں، سویلین قیادت پر خاموشی طاری ہے: اصغر خان کیس کا فیصلہ دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے ایک اور سابق فوجی سربراہ اور آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے، ان پر مقدمہ چلانے کا اسٹیج تیار کردیا تھا لیکن سویلین قیادت کی طرف سے اس فیصلے پر کوئی پیشرفت دکھائی نہیں دیتی۔
شاید یہ اس لیے کہ سن اُنیّس سو نوّے کے انتخابات میں اس مکروہ دھاندلی سے بنیادی طور پر جو فائدہ اٹھانے والے تھے، ایک بار پھر وہی اقتدار میں لوٹ چکے ہیں۔
اگرچہ بعض محاذوں پر سویلین بدستور ناکام ہیں تاہم حقیقت میں اس کی ذمہ داری فوج پر ہونی چاہیے۔ کوئی محفوظ طبقہ نہیں؛ جناب مشرف کے مقدر کا فیصلہ سویلین عدالتوں کو ہی کرنا چاہیے۔