• KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:16pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:36pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:38pm
  • KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:16pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:36pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:38pm

معیشت مشکلات کا شکار رہی

شائع December 31, 2013
اس سال قیمتوں میں اضافےسے عام عوام شدید متاثر ہوئے۔ فائل تصویر
اس سال قیمتوں میں اضافےسے عام عوام شدید متاثر ہوئے۔ فائل تصویر
اس سال ادائیگیوں کیلئے آئی ایم ایف سے مدد لینا پڑی اور  ڈالر روپیہ تناسب نومبر تک اوپن مارکیٹ میں 1:110 تک جاپہنچا۔ فائل تصویر
اس سال ادائیگیوں کیلئے آئی ایم ایف سے مدد لینا پڑی اور ڈالر روپیہ تناسب نومبر تک اوپن مارکیٹ میں 1:110 تک جاپہنچا۔ فائل تصویر

سال دو ہزار تیرا تاریخ میں پاکستان کے لئے ایک غیر معمولی سیاسی کامیابی کے طور پر جانا جاۓ گا - چھیاسٹھ سال میں پہلی بار ملک میں عام انتخابات کے ذریعہ جمہوری اقتدار کی منتقلی کا عمل پورا ہوا-

تاہم، اب پاکستان کے جمہوریت پسند لوگ، جو اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ جمہوریت ان کے لئے بہتر زندگی، مساوی اقتصادی مواقع لے کر آۓ گی، اس بات پر نالاں نظر آتے ہیں کہ حکمرانوں کا یہ نیا گروہ، اپنے پیشرو سے بھی زیادہ لوگوں اور ان کے مسائل سے نابلد نظر آتا ہے۔

ان کے لئے رواں سال گزشتہ سال سے زیادہ مشکل ثابت ہوا، کیونکہ گھریلو بجٹ آسمان سے باتیں کرنے لگا، ٹرانسپورٹ کے اخراجات, یوٹیلٹی ریٹس کے ساتھ ڈرامائی طور پر بڑھ گۓ، جبکہ گرتی ہوئی اقتصادی حالت کا مطلب ہے ملازمت کے کم مواقع اور تنخواہوں میں اضافے کے کم امکانات-

سال دو ہزار تیرہ کا آخری مہینہ تھوڑا تسلی بخش رہا، بڑے پیمانے پر مینوفیکچرنگ گروتھ دیکھنے میں آئی، مہنگائی کسی حد تک قابو میں رہی، یورپین یونین نے جی ایس پی پلس (جنرل سکیم آف پریفرنسس ) کی منظوری دے دی، گیس انرجی سیکٹر سے انڈسٹری کو منتقل کر دی گئی، اور وزیر اعظم نے جامع مذاکرات پر پیش رفت کی بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات مستحکم کرنے کا اعلان کیا ہے۔

دوسری جانب یہ سال پاکستانی معیشت کے لئے کوئی خاص دلچسپ نہیں رہا- الیکشن سال کی عوامی دباؤ کے پیش نظر راجہ حکومت کچھ مشکل فیصلے ملتوی کرنا پڑے، جنہیں اقتدار میں آنے کے فوراً بعد نواز حکومت کو مجبوراً کرنا پڑا-

ادائیگی کے بحران میں توازن لانے کے لئے حکومت کو آئی ایم ایف سے بجٹ کے لئے مدد لینا پڑی یہ حکومت کے لئے کے اور مشکل تھی-

ماضی میں پاکستان سے مشکوک تعلقات کے باوجود جہاں سواۓ ایک کے آئی ایم ایف کا کوئی بھی پروگرام مکمل نہ ہو سکا، نواز حکومت ستمبر میں، فنڈز کے لئے چھ عشاریہ سات بلین ڈالر کی ایکسٹینڈیڈ فنڈ فیسلٹی ( Extended Funds Facility ) کی حیثیت سے ایک ڈیل کرنے میں کامیاب ہو ہی گئی- بہرحال، یہ قرضہ سخت شرایط کے ساتھ دیا گیا اور اس کی ادائیگی کو متفقہ ترقی کے معیار سے مشروط کر دیا گیا-

کارپوریٹ پاکستان نے اس ڈیل پر سکھ کا سانس لیا کیوں کہ وہ مقامی اقتصادی`منتظمین کے مقابلے میں آئی ایم ایف کے وسائل، مینجمنٹ اور مانیٹرنگ پر زیادہ بھروسہ کرتے ہیں-

ان کے لئے اس ڈیل کا مطلب تھا حکومت فری مارکیٹ اکانومی کی راہ سے نہیں ہٹے گی اور اس میں حکومتی مداخلت بھی کم ہوگی-

تاہم، ماہرین کا خیال ہے کہ کرخت مذاکرات کے عمل سے پاکستان کو اقتصادی اصلاحات کی مد میں تھوڑا بہتر اور لچکدار پروگرام مل سکتا تھا-

کیپٹل مارکیٹ، جو سالانہ کارپوریٹ نتائج کی بنیاد پر کاروباری رجحان اور معیشت کی میکرو اکنامک کارکردگی سے مستقبل کا اندازہ لگاتی ہے، بلکل مختلف رہی- یہ استحکام پر استحکام حاصل کرتی چلی گئی اور اس نے کیپٹلائزیشن اور ریٹرن دونوں کی مد میں ریکارڈ کارکردگی دکھائی-

سال کے آغاز میں کے ایس ای 100 انڈکس سولہ عشاریہ نو صفر پانچ تھا اور دسمبر کے آخری ہفتے میں یہ پچیس عشاریہ صفر تک پنہچ گیا-

اس سال اجناس کی مارکیٹ ماند رہی- شعبے میں عالمی رجحان کے مطابق، اجناس کی مارکیٹ میں پورا سال مندی رہی- چاہے وہ کپاس ہو، گندم ، چاول سونا یا کوئی اور دھات سب مندی کا شکار رہے-

کرنسی مارکیٹ میں اتار چڑھاؤ رہا لیکن عمومی طور پر روپیہ کی قدر گرتی رہی- اختتامی مہینوں میں حکومت کی مداخلت سے حالات کچھ بہتر تو ہوے لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ جب تک طویل مدتی بنیادوں پر بیرونی شعبے کمزوریوں سے نمٹا نہیں جاۓ گا اس میں استحکام آنا مشکل ہے-

ڈالر- روپیہ تناسب یکم جنوری کو 1:97 تھا جو نومبر میں اوپن مارکیٹ میں 1:110 ہو گیا، تاہم دسمبر کے تیسرے ہفتے میں فنانس منسٹر اسحاق ڈار کی مداخلت پر یہ 1:106 تک پنہچ گیا- روپیہ اب تک تقریباً اپنی آٹھ فیصد قدر کھو چکا ہے کیونکہ لوگ اپنی بچت ڈالر کی شکل میں محفوظ کر رہے ہیں-

اسلام آباد میں مالیاتی ٹیم کی کمزوری اس وقت سامنے آئی جب اس نے ٹیکس نیٹ بڑھانے اور ملک کی انڈر-رپورٹڈ معیشت کو بہتر بنانے کا فیصلہ واپس لے لیا-

مسلم لیگ - ن کی حکومت اپنے کلیدی حلقے، پاکستانی کاروباری برادری کی خوشنودی سے فائدہ نہیں اٹھا سکی، کیونکہ اب تک حکومت عام انتخابات کے دوران کیے گۓوعدوں کو پورا نہیں کر پائی-

خصوصاً بڑے کاروبار بعض اھم معاملات پر حکومت کی سست رویہ چال پر تنقید کر رہے ہیں، جیسے ٹیکس نیٹ کا پھیلاؤ، پبلک سیکٹر انٹرپرائزز کی ترتیب نو، پرائیویٹایزشن، تھری جی لائسنس کی فروخت، اور ہندوستان کے ساتھ بہتر تجارتی تعلقات جہاں کاروباری حلقے بڑے مارکیٹ مواقع دیکھ رہے ہیں-

سال دو ہزار تیرہ کی آخری سہ ماہی میں پیداواری شرح میں پانچ فیصد اضافے کے نواز حکومتی دعوے میں اعدادوشمار کا فقدان ہے- قابل اعتماد اعدادوشمار کی بنیاد پر تخمینہ لگانے والے ماہرینکا کہنا ہے کہ ملک کو تین فیصد کی سست پیداواری رفتار کے شکنجے سے نکلنا ہوگا اور اوسط اقتصادی توسیح بھی اسی دائرے میں ہونی چاہیے-

تمام یوٹیلیٹیز کی شرح میں نصف سال کے اندر اندر دو بار اضافہ ہوا، جس سے پروڈکشن کی لاگت اور رہن سہن کی لاگت میں نمایاں اضافہ ہوا- مہنگائی پہلی سہ ماہی میں ریکارڈ آٹھ فیصد تک گرنے کے بعد، سال کے دوسرے نصف میں چند مہینوں کے اندر اندر پانچ سے چھ فیصد تک بڑھ گئی-

زیادہ اھم ضروری غذائی اشیاء کی بڑھتی ہوئی قیمتیں ہیں- قیمتوں میں اضافے سے سب سے زیادہ متاثر پاکستانی آبادی کا سب سےغریب طبقہ ہوا-

ماہرین کا ماننا ہے کہ اس صورتحال نے، تقریباً پانچ ملین مزید پاکستانیوں کو غربت کی لکیر سے نیچے دھکیل دیا ہے، جبکہ ملک میں غربت کے اعدادوشمار پہلے ہی سے خاصے خوفناک ہیں- کثیر جہتی اداروں کا ماننا ہے کہ ان اعدادوشمار میں سنہ دو ہزار آٹھ سے لے کر دو ہزار بارہ تک سینتیس فیصد کا اضافہ ہوا ہے-

سال کے دوران ادائیگی میں توازن کی صورتحال بگڑتی چلی گئی جو پاکستانی معیشت کو مزید مشکل چیلنج بن گئی ہے- غیر ملکی زرمبادلہ میں تھوڑے سے اضافے کے ساتھ ملک نے قرضوں اور درامدات کی ادائیگی کی مد میں پانچ بلین ڈالر کھو دیے-

اس طرح سال کے آخر میں ذخائر کی سطح خطرناک حد تک کم ہو کر تین بلین ڈالر سے تھوڑی زیادہ رہ گئی ہے- مالی فرق کی وجہ سے حکومت کو اسٹیٹ بینک سے بھاری قرضے لینے پڑے جس نے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دیے-

وسط دسمبر کی رپورٹ کے مطابق، تمام عوامی قرضوں کی مقدار کھربوں روپیوں تک پنہچ گئی ہے- پبلک ڈیبٹ اونچی سطح تک پنچ گۓ ہیں- یہ پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کے لئے فنڈز کی معمولی ترسیل کے باوجود ہوا-

مالیاتی سال میں، ترقیاتی کاموں کے لئے ریلیز کیے جانے والے پچیس فیصد فنڈز کے برعکس، اب تک اطلاعات کے مطابق نواز حکومت نے ترقیاتی کاموں کے لئے محض چار فیصد فنڈز جاری کیے ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 1 نومبر 2024
کارٹون : 31 اکتوبر 2024