• KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am
  • KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am

تباہ کُن رپورٹ

شائع December 31, 2013
عسکریت پسندوں کے حملے کے بعد جیل کا بیرونی منظر۔ تصویر ظاہر شاہ
عسکریت پسندوں کے حملے کے بعد جیل کا بیرونی منظر۔ تصویر ظاہر شاہ
رپورٹ نے ٹی ٹی پی کو 'تباہ کُن شے' قرار دیتے ہوئے خبردار کیا کہ 'ان عسکریت پسندوں کی شکل میں' تشدد کا خطرہ بدستور موجود رہے گا جس کے آگے سیکیورٹی حکام کو مضبوط تر کرنے کی تمام کوششیں رائیگاں ثابت ہوئی ہیں۔  فائل فوٹو۔۔۔
رپورٹ نے ٹی ٹی پی کو 'تباہ کُن شے' قرار دیتے ہوئے خبردار کیا کہ 'ان عسکریت پسندوں کی شکل میں' تشدد کا خطرہ بدستور موجود رہے گا جس کے آگے سیکیورٹی حکام کو مضبوط تر کرنے کی تمام کوششیں رائیگاں ثابت ہوئی ہیں۔ فائل فوٹو۔۔۔
ڈیرہ جیل ٹوڑنے کی تحقیقاتی رپورٹ میں اٹھے سوالوں کے جواب پر ملکی مستقبل کا دارومدار ہے۔ فائل فوٹو۔۔۔
ڈیرہ جیل ٹوڑنے کی تحقیقاتی رپورٹ میں اٹھے سوالوں کے جواب پر ملکی مستقبل کا دارومدار ہے۔ فائل فوٹو۔۔۔

ان برسوں کے دوران کہ جب پاکستان دہشتگردی اور عسکریت پسندی کے جال میں بُری طرح الجھ چکا، تب بھی ایسے دشمنوں کی کمی نہیں جنہیں ریاست کے مختلف عناصر کی نااہلی کے باعث، مکمل طور پر نہ سہی تو کم از کم اعانت سے ہی، معاملات کو منزل تک پہنچانے کی اجازت ملتی ہیں۔

ریاست کے نمائندوں نے یہ کہتے ہوئے اس الزام کی سختی سے تردید کی تھی کہ اس میں ان کا کوئی ہاتھ نہیں اور رہے شہری تو وہ قیادت کی طرف سے دیے گئے بے تکے جواز کا معیار دیکھتے ہوئے، اسے ہضم نہیں کرسکے تھے۔

بدقسمتی سے، یہاں سطحِ زمین پر بُلند و بالا یادگاروں کی مانند سر بُلند کیے، نااہلیت کے ان ثبوتوں سے کسی کو انکار نہیں۔ ایسے میں ریاست کی سیاسی رضامندی کے معیار اور عمل کی اہلیت کے سوا، کسی اور پر کوئی سوال اٹھ ہی نہیں سکتا۔

اس زمرے میں، گذشتہ جولائی کے دوران عسکریت پسندوں کے ہاتھوں ڈیرہ اسماعیل خان کی جیل توڑ کر ڈھائی سو قیدیوں کو آزاد کرانے کے سے متعلق ان انکشافات کو ضرور شامل کیا جاناچاہیے جو سیکیورٹی حکام اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر نظر ڈالتے ہیں۔

واقعے کی تحقیقات کے لیے قائم کی گئی کمیٹی، جس کی رپورٹ کے مندرجات گذشتہ روز زیرِ نظر اخبار میں شائع ہوچکے، اس میں سیکیورٹی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر باضابطہ ذمہ داری عائد کی گئی ہے۔ اسے کسی بھی لحاظ سے کم تر نہ گردانتے ہوئے، نیند سے جگانے والے الارم کی مانند لینا چاہیے۔

شتر مرغ کی طرح ریت میں سر دے کر خطرہ ٹل جانے کے پاکستانی نقطہ نظر سے جو واقف ہیں، ان کے لیے رپورٹ کے یہ حقائق حیران کرنے کے بجائے، اس کے تمام تر عناصر اس سے مکمل طور پر خالی ہیں۔

رپورٹ کا کہنا ہے کہ دو درجن سے زیادہ محسود عسکریت پسند جن کے ساتھ پنجاب اور ازبکستان سے تعلق رکھنے والے متعدد عسکریت پسند بھی تھے، جنوبی وزیرستان سے سفر کرتے ہوئے ڈیرہ اسماعیل خان پہنچے۔

یہاں انہوں نے دفاعی اور عسکری نوعیت کے حامل دس ایسے حساس مقامات پر اپنی چوکیاں قائم کیں، جہاں سے وہ علاقے میں سیکیورٹی اہلکاروں کی رسائی روک سکتے تھے۔ دھچکے کی بات یہ ہے کہ عسکریت پسندوں کی قائم کردہ یہ چوکیاں، پولیس اور فوج کی چیک پوسٹوں سے کچھ زیادہ دور نہیں تھیں۔

عسکریت پسندوں نے راکٹ لانچر سے گولے برسا کر جیل کا مرکزی گیٹ توڑا، اندر داخل ہو کر پینتالیس منٹ یا اس سے ذرا زیادہ عرصے تک 'منظم' طور پربیرکوں کی تلاشی لے کر اپنے لوگ آزاد کرتے رہے، حتیٰ کہ اس دوران انہوں نے قیدیوں کی شناخت بھی کی اور اقلیتی فرقے سے تعلق رکھنے والے چار قیدیوں کو شناخت ہونے پر گولیاں مار کر ہلاک بھی کردیا۔

یہ سب کچھ کرنے کے بعد وہ منتشر ہوئے، کچھ نے جنوبی وزیرستان کا رخ کیا اور باقی دوسرے، شہر میں گھل مل گئے۔

رپورٹ کے مطابق اس پوری کارروائی کے دوران سیکیورٹی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے کسی قسم کی مداخلت یا ردِ عمل سامنے نہیں آیا، حالانکہ اُن دنوں سیکیورٹی کو زیادہ سخت کیا گیا تھا۔

یہاں دلیل دی جاسکتی ہے کہ جیل توڑنے کا واقعہ جس بڑے پیمانے پر عمل میں آیا، اس کا مقابلہ کرنا مشکل تھا۔ اس سے پہلے اس طرح کا صرف ایک ہی واقعہ ہوا تھا لیکن اس مرتبہ، یہاں انٹیلی جنس رپورٹیں تھیں کہ ایسا کوئی واقعہ ہوسکتا ہے۔

مگر پھر بھی، یہاں تو صاف ظاہر ہے کہ گذشتہ برس اپریل میں بنوں جیل توڑ کر قیدیوں کو فرار کرنے کے اُس واقعے سے کوئی سبق ہی نہیں سیکھا گیا، جس کی ذمہ داری طالبان نے قبول کی تھی۔ اس واقعے میں چار سو کے قریب قیدی جیل سے فرار کرائے گئے تھے۔

علاوہ ازیں، ڈیرہ اسماعیل خان کے واقعے میں، سول اور سیکیورٹی انتظامیہ اس خطرے سے پہلے ہی آگاہ تھیں اور انہوں نے اسے روکنے کے خاطر اقدامات بھی کیے تھے۔

کیا عجب بات کہ جہاں ریاست اپنی عملداری دوبارہ قائم کرنے کے دعوے کرتی رہتی ہے اور جو طویل عرصے سے عسکریت پسندی اور دہشت گردی کے زخم سہ رہے ہیں، اگر اُن علاقوں میں حفاظتی تیاریاں ایسی ہیں تو پھر ملک بھر میں امن و امان کی جو مجموعی صورتِ حال ہے اس کے واسطے جو تیاریاں ہوں گی، اُن کا تو صرف تصور کیا جاسکتا ہے۔

سب سے زیادہ پریشان کرنے والی بات شاید یہ ہوسکتی ہے کہ رپورٹ کے مطابق، دہشتگرد جیل کے اندر تقریباً آدھ گھنٹے سے زائد اپنی کارروائی کرتے رہے اور اس دوران ایک عسکریت پسند نے پولیس وائرلیس فریکوئنسی پر حکام کو طنزیہ پیغام دیا کہ انہوں نے سب کچھ ملیا میٹ کر کے میدان بنادیا ہے۔

ان کا اعتماد حیران کن ہے؛ ذرا عسکریت پسندوں کے اچھی طرح لیس ہونے کا تصور کیجیے کہ وہ کس طرح ریاست اور سیکیورٹی حکام کو بے بس کر کے، ان کے گرد حصار بنائے گھومتے رہے۔

رپورٹ نے ٹی ٹی پی کو 'تباہ کُن شے' قرار دیتے ہوئے خبردار کیا کہ 'ان عسکریت پسندوں کی شکل میں' تشدد کا خطرہ بدستور موجود رہے گا جس کے آگے سیکیورٹی حکام کو مضبوط تر کرنے کی تمام کوششیں رائیگاں ثابت ہوئی ہیں۔ کیا ریاست اس خطرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنے کو مسترد کردے گی؟

کیا وہ اس مسئلے کی سنگینی کا اعتراف کرتے ہوئے شرمارہی ہے؟ یا سب سے زیادہ پریشان کُن بات یہ کہ کیا وہ زور پکڑنے اور اپنی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو درکار ہدف حاصل کرنے کی خاطر، مضبوط بنانے کے قابل نہیں ہے؟

ان سوالوں کے جواب پرملک کے مستقبل کا دارومدار ہے۔

انگریزی میں پڑھیں

ڈان اخبار

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024