کشمیر کی ' آدھی بیواؤں' کو چار سال بعد شادی کی اجازت
اسلام آباد: ہندوستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں علما نے ان خواتین کو شادی کرنے کی اجازت دیدی ہے جن کے شوہر کم از کم چار سال سے لاپتہ ہیں ۔
گزشتہ بیس سال سے ہندوستانی افواج کے ہاتھوں ہزاروں مرد لاپتہ ہوچکے ہیں اور ان کی بیویاں اب تک یہ نہیں جانتی کہ ان کے شوہر زندہ بھی ہیں یا مرچکے ہیں۔ ان خواتین کو عام طور آدھی بیوائیں یا ہاف وڈوز کہا جاتا ہے۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق ' یہ ایک سول سوسائٹی کے تحت اٹھایا گیا قدم ہے جس میں لاپتہ ہونے والے افراد کی بیویوں کے مستقبل پر اسلامی اسکالرز نے طویل مشاورت پر یہ فیصلہ دیا ہے۔
انہی علما کا کہنا ہے کہ ان خواتین کے لاپتہ ہونے والے شوہروں کی جائیداد کی تقسیم کا معاملہ بھی قرآنی احکامات کی روشنی میں حل کیا جائے۔
ہندوستان میں شادیوں سے متعلق 1939 کے ایکٹ کے تحت اگر چار سال تک کسی مسلم عورت کا شوہر لاپتہ رہے تو وہ اس سے علیحدگی ہونے کی اہل ہوجاتی ہے۔
دوسری جانب اگر شوہر دوسال تک بیوی سے لاتعلق رہتا ہے اور اسے مالی مدد فراہم نہیں کرتا تب یہ یہی صورتحال نافذ ہوتی ہے۔ یا شوہر کو سات سال قید کی سزا ہوجائے تب بھی وہ یہ حق استعمال کرسکتی ہے۔
ایسی ہی ایک خاتون رفیقہ کا کہنا تھا میں نہ ہی طلاق یافتہ ہوں اور نہ ہی بیوہ بلکہ ایسی شادی شدہ خاتون ہوں جس کا شوہر نہیں۔
ایسی خواتین کے شوہروں کے متعلق کہا جاتا ہے کہ انہیں ہندوستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں پولیس اور فورسز کیجانب سے قید کیا گیا ہے، ان پر تشدد کرکے قتل کیا گیا ہے یا انہیں اغوا کرلیا گیا ہے۔
کشمیر میں ایک آزادانہ گروپ لاپتہ افراد کے والدین ( اے پی ڈی پی) کے مطابق 1989 سے جاری تحریک ِ آزادی میں اب تک دس ہزار سے زائد افراد لاپتہ ہوچکے ہیں۔ ان میں سے دوہزار نوجوان ایسے بھی تھے جو شادی شدہ تھے۔
ان کی بیویاں ایک مخمصے میں گرفتار ہیں ۔ ایک جانب تو وہ اپنے شوہرو ں کی منتظر ہیں تو دوسری جانب انتظار کے بعد وہ نئی زندگی شروع نہیں کرسکتیں۔
ان میں سے بعض خواتین کے شوہر دس سالے سے بھی ذیادہ عرصے سے لاپتہ ہیں۔
یہ خواتین شدید کرب میں مبتلا ہیں کیونکہ انہیں اپنے شریکِ حیات کے بارے میں کچھ معلوم نہیں اور وہ مسلسل انتظار کی تکلیف کاٹ رہی ہیں۔
تبصرے (1) بند ہیں