• KHI: Fajr 5:00am Sunrise 6:18am
  • LHR: Fajr 4:21am Sunrise 5:44am
  • ISB: Fajr 4:22am Sunrise 5:48am
  • KHI: Fajr 5:00am Sunrise 6:18am
  • LHR: Fajr 4:21am Sunrise 5:44am
  • ISB: Fajr 4:22am Sunrise 5:48am

خاموشی کا پچھتاوا

شائع December 29, 2013
فائل فوٹو
فائل فوٹو

سینئر سیاستداں عمران خان نے نریندر مودی کے بارے میں جو کچھ کہا ہے ان سے یہی توقع تھی- ہمارا بڑا پڑوسی چاہے جسے بھی اپنا رہنما منتخب کرے پاکستان اس سے اپنے تعلقات برقرار رکھے گا، سابقہ کرکٹر عمران خان نے دہلی میں ایک بین الاقوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا-

بعض لوگ شائد یہ کہیں کہ ان کا یہ بیان سیاسی ڈپلومیسی ہے- کسی حد تک چیمبرلین کے انداز میں عمران خان اس مسئلہ سے پہلو بچا گئےہیں- چین پر اس کے سب سے بڑے تجارتی شریک کی جانب سے مبینہ یا حقیقی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر سخت تنقید کی جاتی ہے- لیکن یہ تنقید بھی بعض اصولوں کے احترام کی وجہ سے کی جاتی ہے-

ایسا کیوں ہے کہ جب یورپین یونین مودی کو تنقید کا نشانہ بناتا ہے یا امریکہ انھیں اپنے ملک میں اس وجہ سے آنے سے روک دیتا ہے کہ انھوں نے عیسائیوں اور مسلمانوں سے امتیازی سلوک کیا تو ہم تعریفیں کرتے ہیں؟

دنیا بھر کے بڑے حصوں میں مودی کے تعلق سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ انسانی حقوق کے مسائل پر خلاف ورزیوں کے مرتکب ہوئے ہیں-

جہاں تک مجھے یاد ہے، حکومت پاکستان نے 2002 میں گجرات میں ہونے والے منظم قتل عام کا مسئلہ اٹھایا تھا، جس طرح ہندوستان نے پاکستان میں ہندووں یا عیسائیوں کو قتل کرنے یا ہراساں کرنے پر سخت تشویش ظاہر کی تھی-

البتہ تعجب اس بات پر ہوتا ہے کہ یہ سارا غم و غصہ مذہبی اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک تک محدود ہے- ایسا کیوں ہے کہ ہم مسائل کے انبار میں سے صرف اپنی پسند کا مسئلہ چنتے ہیں؟

میں نے شیما کرمانی کے بارے میں پڑھا ہے کہ انھوں نے کراچی میں بلوچستان کے سیاسی-نسلی تنازعہ سے متاثر ہونے والی عورتوں کی تکالیف پر ایک بیحد عمدہ اور دلیرانہ پروگرام کیا تھا-ان کی ہم پیشہ ہنوستانی ملکہ سارہ بھائی نے گجرات کے سانحہ میں سخت صدموں سے گزرنے والی عورتوں کے درمیان جا کر قابل تحسین کام کئَے- کیا ان دونوں کے دل ایک دوسرے کیلئے نہیں دھڑکتے؟

چنانچہ میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ عمران خان اور اسلام آباد میں برسر اقتدار حکمرانوں کو غیر ضروری طور پر محتاط ہوئے بغیر برے کو برا کہنے سے احتراز نہیں کرنا چاہیئَے، خاص طور جب بات اصولوں کی ہو خواہ اس کا تعلق جافنا کے تاملوں، کشمیریوں، فلسطینیوں یا گجرات اور کراچی میں قتل ہونے والے لوگوں سے کیوں نہ ہو-

یہی حال ہندوستانیوں کا ہے جو دہشت گردی کے مسئلہ کے علاوہ جو یہاں ہمہ وقت موجود ہے پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی بات نہیں کرتے- اور عمران خان میں اگر مودی پر لعن طعن کرنے کی ہمت موجود ہے، تو ہندوستانیوں سے کیوں امید کرتے ہیں کہ وہ بلوچستان میں قتل یا برگشتہ کیئے جانے والے بلوچوں کے معاملے میں نرمی سے کام لینگے؟

امن کی بات کرنے والے پاکستانیوں اور ہندوستانیوں کو چاہیئے کہ وہ ہند-پاک تاریخ کے ایک صفحے کو پلٹ کر دیکھیں- میں سمجھتا ہوں کہ سابقہ وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے بالکل صحیح کیا تھا جب انھوں نے وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف جنرل مشرف کی فوجی بغاوت کے بعد احتجاجاً پاکستان کے ساتھ مذاکرات عارضی طور پر معطل کر دیئے تھے- یہ اور بات ہے کہ ہندوستان نے جو موقف اختیار کیا تھا وہ کسی اصول کی بنیاد پر تھا اور نہ ہی اس میں کوئی مستقل مزاجی تھی-

یہی واجپائی جب وزیر خارجہ تھے، انھوں نے جنرل ضیاء کی بغاوت کو تسلیم کیا تھا اور ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے خلاف فوجی حکومت سے اپیل کرنے سے انکار کردیا تھا- ہندوستان اور پاکستان میں اندرا گاندھی کو دایئِں بازو کے لوگ شائد شدید طور ناپسند کرتے ہوں، لیکن انھوں نے بھٹو کی جان بخشنے کی حمایت کی تھی اور ضیاء کے خلاف آواز بلند کی تھی حالانکہ وہ اس وقت اپوزیشن میں تھیں- جیسا کہ ہم جانتے ہیں، عمران خان نے دہلی میں جو فرسودہ بیان دیا تھا وہ اس قسم کا بیان دینے والے تنہا شخص نہیں ہیں بلکہ اور بھی پاکستانی ہیں جو متنازعہ نہیں بننا چاہتے، یہی کرتے ہیں- یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ کوئی تیز رفتار کار کسی زخمی شخص کو دیکھ کر بھی آگے بڑھ جائے-

یہ حقیقت ہے کہ اسلام آباد میں خواہ کسی کی حکومت ہو اسے دہلی میں قائم حکومت سے معاملات طے کرنے ہوتے ہیں- اس حد تک عمران کا جواب ڈپلومیسی کے لحاظ سے اور سیاسی طور پر، دونوں ہی لحاظ سے، درست تھا جو انھوں نے دہلی کے اجتماع میں دیا تھا اگرچہ اس بات میں شبہ ہے کہ آیا ان کا جواب اخلاقی طور پر مناسب تھا-

تب رول ماڈل کون ہے، وہ واجپائی جو وزیرآعظم تھے یا وہ واجپائی جو وزیر خارجہ تھے؟

مجھے اس تعلق سے ایک اور بات کہنی ہے- میرا خیال ہے کہ ہمیں اپنے اپنے علاقوں میں سنگین مسائل کا سامنا ہے --ایک جگہ تو ہلاکت خیز مسلم انتہاپسندی، اور دوسری طرف ہندو انتہا پسندی گو کہ قدرے کم، ان حالات میں کہ جدید معاشی قدامت پسندی اپنا اثر و نفوذ پھیلا رہی ہے، دونوں کے سامنے ایک ہی راستہ ہے-- اس آگ کو بجھانا اور اپنے اپنے ملکوں میں مشترکہ طور پر اس جنگ کے خلاف لڑنا-

اور اس کے لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی داخلی سیاست کی جانب توجہ دیں اور اس کے ساتھ ساتھ ان مشکلات پر بھی نظر رکھیں جو سرحد کے دوسری طرف ہمارے دوستوں کو در پیش ہیں- دونوں جانب جان لیوا مفلسی ہے اور استحصال ہورہا ہے جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ ملک کے اندر سیاسی عدم استحکام جاری رہے گا-

اس بات پر غور کیجیئے کہ ہند-پاک مذاکرات جو لاہور میں 1999 میں شروع ہوئے تھے اور شرم الشیخ میں ہونے والے حالیہ مذاکرات کی ناکامی اس پہلو کی عکاسی کرتے ہیں کہ دونوں ممالک کو گہرے داخلی بحران کا سامنا ہے- دونوں ممالک دائیں بازو کی سیاست کے چکر میں پھنسے ہوئے ہیں، فرق صرف یہ ہے کہ پاکستان اس چکر سے نکلنا چاہتا ہے، جبکہ ہندوستان جان بوجھ کر اس میں پھنس رہا ہے-

مجھےوہ دن یاد آرہے ہیں جب ہندوستانی اور پاکستانی، عوامی سطح پر آزادی سے ایک دوسرے کے مسائل پر بلا جھجک اظہار خیال کرتے تھے خواہ ان کا تعلق آمریت سے ہوتا یا دیگر تعصبات سے-

ایوب خان کی فوجی آمریت کے خلاف مجروح سلطانپوری کا پاکستانی عوام سے خطاب اس یادگار رشتہ کی محض ایک مثال ہے-

ستون دار پہ رکھتے چلو سروں کے چراغ جہاں تلک یہ ستم کی سیاہ رات چلے جلا کے مشعل جاں، ہم جنوں صفات چلے جو گھر کو آگ لگائے ہمارے ساتھ چلے

یہ ایک فکرمند ہندوستانی شاعر کی طرف سے ایک دوسرے ملک میں رہنے والے ساتھیوں کے لیئے پکار تھی کہ وہ اپنے ملک کے آمر کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں-

پاکستان کی شاعرہ فہمیدہ ریاض نے حال ہی میں اس مذہبی جنون کے خلاف آواز بلند کی ہے جس نے 1980 کے بعد سے دائیں بازو کے ہندو احیاء کے نتیجے میں ہندوستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے-

سردار جعفری شائد امن چاہنے والوں کو مشورہ دیتے کہ وہ ہندوستان کے ہمالیہ کی تازہ ہوائیں اور لاہور کے چمن زاروں کی خوشبو سے مستقبل کو سنوار دیں-

لیکن آج لاہور میں بموں کے دھماکے گونج رہے ہیں اور فوجی نقل و حرکت نے ہمالیہ کی برف کو زہر آلود کردیا ہے- دونوں ہی ممالک اس سے بری طرح متاثر ہورہے ہیں- اور ہم نہیں چاہتے کہ کل ہمیں آج کی خاموشی پر پچھتانا پڑے-

انگلش میں پڑھیں

  ترجمہ : سیدہ صالحہ
جاوید نقوی

لکھاری نئی دہلی میں ڈان کے نمائندے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس jawednaqvi@gmail.com ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 6 اپریل 2025
کارٹون : 5 اپریل 2025