پشاور ہائی کورٹ نے فیول ایڈجسٹمنٹ سرچارج غیر قانونی قرار دے دیا
پشاور: پشاور ہائی کورٹ نے گزشتہ روز فیول ایڈجسٹمنٹ کے حوالے سے کیس کی سماعت کے موقع پر صوبہ خیبر پختونخوا میں پیپکو کی جانب سے وصول کیے جانے والے اضافی سرجارج کو غیر قانونی قرار دے دیا۔
پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس دوست محمد خان اور جسٹس ناصر حسین پر مشتمل دو روکنی عدالتی بینچ نے انڈسٹریل یونٹس اور دیگر اداروں کی طرف سے دائر کردہ تقریباً 80 درخواستوں پر کیس کی سماعت کی۔
اس موقع پر عدالت نے پشاور الیکٹریک سپلائی کمپنی (پیپکو) کو حکم دیا کہ وہ صارفین سے وصول کیے جانے والے سرچارج کو ماہانہ بلوں میں ایڈجسٹ کریں۔
سماعت کے بعد پیپکو کے وکیل عبدالرؤف روہیلہ نے میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ پیپکو پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرے گی۔
اس سے قبل عدالت میں انہوں نے کہا کہ لاہور اور اسلام آباد ہائی کورٹ فیول ایڈجسٹمنٹ کو غیر قانونی قرار دے چکی ہے اس لیے درخواست گزار اس فیصلہ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ 1996ء میں گدون ٹیکسٹائل ملز کیس میں اس طرح کے زیادہ تر معاملات پر فیصلہ جاری کرچکی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بجلی کی پیداوار کے ذریعے ہائیڈل پاور نیشنل گریڈ اسٹیشن کا حصہ بن گیا ہے جس سے پورے ملک میں بجلی فراہم کی جاتی ہے اور صوبائی حکومت ہائیڈل پاور کی پیدوار سے خالص منافع حاصل کرتی ہے۔
اس موقع پر چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ دوست محمد خان نے ریمارکس میں کہا کہ پیسکو اب ایک "چندہ بکس" کی شکل اختیار کر چکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ٹرانسفارمر خراب ہو جائیں تو عوام سے چندہ اکھٹا کر کے خراب ٹرانسفارمر ٹھیک کئے جاتے ہیں۔
ریمارکس دیتے ہو ئے ان کا مزید کہنا تھا کہ گھریلوصارفین بجلی چوری نہیں کرتے بلکہ صنعتکاراس میں ملوث ہوتے ہیں۔
چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ نے حکم دیا کہ ایک روپے تیس پیسے میں بننے والی بجلی صوبے کی عوام کو 14 روپے میں دی جاتی اور آئندہ فیول ایڈجسٹمنٹ سرچارج وصول نہ کیا جائے تاکہ صوبے کی عوام کوسستی بجلی مل سکے۔