بنگلہ دیش: جماعت اسلامی کے رہنما کو پھانسی
ڈھاکا: بنگلہ دیش نے جمعرات کے روز جماعت اسلامی کے سینئر رہنما اور اپوزیشن لیڈر عبدالقادر ملا کو پھانسی دے دی ہے۔
خیال رہے کہ 1971ء کی جنگ آزادی کے موقع پر جنگی جرائم میں ملوث پائے جانے والے رہنماؤں کو دی جانے والی پھانسی کا یہ پہلا واقعہ ہے۔
نائب وزیر قانون قمرالاسلام نے اے ایف پی کو بتایا کہ ملا کی سزائے موت پر عمل درآمد کردیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ملا کو دارالحکومت ڈھاکہ کی ایک جیل میں 10 بجکر ایک منٹ پر پھانسی دی گئی۔
دوسری جانب ملا کے اہل خانہ کی پھانسی دیے جانے سے قبل ان سے ملاقات کروائی گئی جس کے بعد ان کا کہنا تھا کہ وہ اس موقع پر ' پرسکون' تھے۔
ان کے بیٹے حسن جمیل کا کہنا تھا کہ ان کے والد نے ان سے کہا کہ ملک میں اسلامی موومنٹ چلانے کے بعد شہید ہونے پر انہیں فخر ہے۔
فوری طور پر جیل میں کسی قسم کا تشدد نہیں ہوا تاہم مقامی میڈیا کے مطابق مذہب پسندوں نے متعدد شہروں میں کروڈ بموں اور پتھروں کیساتھ پولیس پر حملے کیے۔
معاملے کی نزاکیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ملک بھر میں سیکورٹی کو بڑھادیا گیا تھا جبکہ اہم مقامات پر سرحدی نیم فوجی دستوں کو بھی تعینات کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ جماعت نے ملا کی پھانسی کا بدلہ لینے کی دھمکی دے رکھی ہے۔
تاہم پھانسی کے بعد ہزاروں سیکولر مظاہرین نے سڑکوں پر جشن منایا جو کہ کئی دنوں سے ملا کو سزائے موت دینے کا مطالبہ کررہے تھے۔
اس سے قبل سپریم کورٹ نے عبدالقادرملا کی سزائے موت کی توثیق کر دی تھی جس سے ان کو سزائے موت دیے جانے کی راہ ہمرا ہو گئی۔
جمعرات کو بنگلہ دیشی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس مزمل حسین نے اپوزیشن لیڈر کی اپیل مسترد کرتے ہوئے ان کی سزائے موت پر عمل درآمد کا حکم دیا۔
بعدازاں اٹارنی جنرل محبوب عالم نے سپریم کورٹ کے احاطے میں اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب انہیں پھانسی دینے میں کوئی قانونی رکاوٹ نہیں۔
جماعت اسلامی جو کہ بنگلہ دیش کی نیشلسٹ پارٹی کی بنیادی اتحادی جماعت ہے نے خبردار کیا ہے کہ ملا کو پھانسی دیے جانے کے خطرناک نتائج برآمد ہوں گے۔
یاد رہے کہ منگل کو بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ نے اچانک جماعت اسلامی کے 65 سالہ مرکزی رہنما عبدالقادر ملا کی پھانسی کی سزا پر عمل درآمد روکنے کا حکم دے دیا تھا۔
سپریم کورٹ نے انتہائی ڈرامائی انداز میں یہ حکم اس وقت جاری کیا جب عبدالقادر ملّا کو ڈھاکہ سنٹرل جیل میں پھانسی دینے میں محض ڈیڑھ گھنٹہ ہی باقی رہ گیا تھا۔
منگل کو محبوب حسین، عبدالرزاق اور تاج الاسلام پر مشتمل عبدالقادر ملا کے وکلا کی ٹیم نے پھانسی پر عمل درآمد رکوانے کی اپیل دائر کر دی۔
اپیل میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ کہ ”عبدالقادر ملا کی سپریم کورٹ میں دائر کردہ نظر ثانی کی پہلے سے دائر کردہ اپیل کا فیصلہ سامنے آئے بغیر پھانسی دیا جانا غیر آئینی اور غیر قانونی ہو گا۔ “ اس اپیل کے بعد تقریبا ساڑھے نو بجے وکلا جسٹس سید محمود حسین کی رہائش نے جیل حکام کو سزا پر عمل درآمد سے روک دیا تھا۔
واضح رہے حسینہ واجد حکومت کی طرف سے 2010 میں قائم کیے گئے انٹر نیشنل کرائمز ٹریبیونل نے ماہ فروری کے آغاز پر ایک مقدمے میں بری کرتے ہوئے پانچ مختلف مقدمات میں عبدالقادر ملا کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔
عبدالقادر ملا پر 1971 میں بنگلہ دیش کی آزادی کی تحریک کے دوران جنگی جرائم میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔
بنگلہ دیشی حکومت گزشتہ چند ماہ کے دوران جماعت اسلامی کے متعدد رہنماؤں کو 1971 کی تحریک آزادی میں جنگی جرائم کا مرتکب قرار دیتے ہوئے سزائیں سنا چکی ہے۔
حکومت کے اس عمل سے ملک میں آزادی کے بعد سب سے بدترین فسادات شروع ہو گئے جس میں اب تک 231 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ اے ایف پی کے مطابق جمعرات کو جھڑپوں میں اپوزیشن کے حامی چار افراد گولیاں لگنے سے ہلاک ہو گئے۔
پھانسی کے اس فیصلے پر اپوزیشن رہنما کے وکیل نے کہا کہ ہم ناخوش ہیں کیونکہ ہمیں انصاف نہیں ملا۔
عالمی سطح پر اس متنازع مانے جانے والے ٹرییونل کی سزا کیخلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی گئی تو سپریم کورٹ نے عمر قید کو سزائے موت میں بدل دیا۔
اتوار آٹھ دسمبر کو انٹرنیشنل کرائم ٹریبیونل نے ملّا عبدالقادر کی پھانسی کا ایک وارنٹ جاری کیا تھا۔ جس کا مطلب تھا کہ پینسٹھ برس کے ملّا کو کسی بھی دن پھانسی پر لٹکایا جاسکتا ہے، اور انہیں صرف اس صورت میں معافی مل سکتی تھی کہ یا تو صدر عبد الحامد ان کی اس سزا کو معاف کردیں، یا پھر اعلیٰ ترین عدالت اس مقدمے پر نظرثانی کرے۔
اس وقت سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر پراسیکیوٹر زیاد المعلم کا کہنا تھا ”جیل کے حکام اب جیل کے قواعد و ضوابط کے مطابق انہیں پھانسی دے دیں گے۔“ انہوں نے زور دیا تھا کہ صرف صدارتی معافی ہی اس سزا پر عملدرآمد کو روک سکتی ہے۔ اگر عبدالقادر ملا کو پھانسی دی جاتی ہے تو وہ سپشل ٹرائل کورٹس کی طرف سے سزائے موت دیے جانے والے پہلے شخص ہوں گے۔
واضح رہے کہ حسینہ واجد کی حکومت کا کہنا ہے کہ 1971 میں تحریک آزادی کی جنگ میں پاکستانی فورسز اور جماعت رہنماؤں کی زیر قیادت ان کے حامیوں کے ہاتھوں 30 لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہوئے لیکن آزاد ذرائع کے مطابق ہلاک شدگان کی تعداد تین سے پانچ لاکھ تھی۔
بنگلہ دیش میں ایک تسلسل سے سزائے موت دیے جانے کا سلسلہ جاری ہے لیکن ملا جنوری 2010 کے بعد تختہ دار پر چڑھائے جانے والی سب سے بڑی شخصیت ہوں گے۔
جنوری 2010 میں پانچ سابق فوجی افسران کو ملک کے بانی رہنما شیخ مجیب الرحمان اور حسینہ کے والد کے قتل کے الزام میں سزائے موت دی گئی تھی۔
تبصرے (3) بند ہیں